پاکستا ن کو1.20 ارب ڈالرزجرمانے کی معافی، باغی ٹی وی معافی کی پشین گوئی پہلے ہی کرچکا

0
32

اسلام آباد:اخوت اس کو کہتے ہیں!طیب اردوان نے پاکستان سے دوستی کاحق اداکردیا، تفصیلات کےمطابق پی ٹی آئی حکومت نے صدر اردگان کی مدد سے کرکی تنازعہ کو خوش اسلوبی سے حل کیا ہے اور آئی سی ایس آئی ڈی کے ذریعہ عائد کردہ پاک 1.2 ارب ڈالر جرمانہ کی بچت کی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کو ہونے والے کل جرمانے میں سے جوجرمانہ معاف ہوا ہے باغی ٹی وی پہلے ہی اس کی پیشن گوئی کرچکا ہے اور کل کے فیصلے کے بعد حرف بحرف باغی ٹی وی کی رپورٹ درست ثابت ہوئی ہے

1-ارب20کروڑ ڈالرزکی معافی مل سکتی ہے،

باغی ٹی وی کے مطابق پاکستان بین الاقوامی ادارے آئی سی ایس آئی کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی پر کم وبیش 6 ارب ڈالرز سے زائد رقم کے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی ، جس پر پاکستان کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا

پاکستان کو 5.84 ارب ڈالرز کاجرمانہ،عالمی ادارے کا اعلامیہ،باغی ٹی وی 

.

یہ جرمانہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ہٹ دھرمی اور جانبدرانہ فیصلے کی وجہ سے پاکستان کو ہوا ، آئی سی آئی ایس کی طرف سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کا فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ہوا یوں یہ غلطی سابق چیف جسٹس افتخار کی تھی جس کا خمیازہ اور کفارہ عمران خان کی حکومت کے حصے میں آیا تھا

مشہورزمانہ دواسازکمپنی جانسن اینڈ جانسن پر13 کھرب روپے کا جرمانہ

ذرائع کے مطابق جرمانے کی سزاکےفیصلے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی تھی کہ حکومتی ٹیم یہ جرمانہ معاف یا کم کرانے کے لیے کوشش کرے ،جس کا ذکر عمران خان نے اپنے ٹویٹ پیغام میں بھی کیا ہے،

دوسری طرف عمران خان نے اپنے پیارے ،ہم مکتب ،ہم فکر اور ہم خیال دوست ترک صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو بہتر انداز سے انجام تک پہنچانے کے لیے جو کردار ترک صدر طیب اردوان نے اداکیا اس کی تعریف کی بھی کی ہے

ریکوڈک منصوبے پر عالمی ادارے کے فیصلے کو چیلنج کریں گے پاکستان کا ردعمل

یادرہےکہ ریکوڈیک منصوبہ پاکستان کی تاریخ کا ایک شاندار منصوبہ تھا جس میں‌پاکستان میں سونے کے بہت سے ذخائر کو تلاش کرکے ان کو حقیقت میں بدلنا تھا ، حالیہ جو تنازعہ چل رہا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ جانا جائے کہ یہ منصوبہ بالآخر ہے کیا ؟انٹر نیشنل سنٹر فارسیٹلمنٹ آف ڈسپیوٹس (عالمی بینک کا ادارہ) نے پاکستان کے خلاف ایک سات سالہ پرانے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہو ئے پاکستان پر تقر یبا پانچ ارب ستانوے کروڑ ڈالرز کا جر مانہ کر دیا ہے۔

افتخار چوہدری پاکستان کو لے ڈوبے،پاکستان کو 4.7 ارب ڈالرز کا جرمانہ کروا دیا

اس مقدمے کی کہانی کا آغاز آج سے تقر یبا 26 سال قبل (29 جولائی انیس سو تر انوے) سے ہوتا ہے جب بلو چستان گورنمنٹ نے ایک امریکی کمپنی کے ساتھ ریکوڈک (پرانا نام کو ہ دل نو کنڈی سے تقریبا ستر کلو میٹر شمال مغرب ایران بارڈر کے قریب) کے پہاڑی علاقے میں سونے، تانبے اور اسکے موجود معدنی ذخائر پر ایک جامع رپورٹ اور اسکے معاشی فوائد پر ایک جوائنٹ وینچر معائدہ کیا تھا۔

بریکنگ:اگلے تین گھنٹوں میں پاکستان کو 4 ارب ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے.

اس امریکی کمپنی نے بعدازاں ایک ٹیتھیان کوپر کمپنی (اسٹر یلوی رجسٹر ڈ) کے ساتھ حصہ داری معا ہدہ کیا جس کی رو سے بلوچستان گورنمنٹ نے اس کمپنی کو 9ستمبر 2002 کو سونے، کوپر اور دیگر مو جود معدنی وسائل کی تلاش کا لائسنس جاری کیا اور اس کمپنی نے پاکستان میں اپنی ایک برانچ دفتر کھول کر کام شروع کر دیا۔

یکم اپریل 2006 کو بلوچستان گورنمنٹ نے ایک اور معاہدہ کرتے ہوئے اس منصوبے کے سارے حقوق ٹتھیان کمپنی کو دے دیے اور یوں امریکی کمپنی کی جگہ ٹیتھیان نے لے لی اور اپنا کام شروع کر دیا۔

ریکوڈک کیس میں جرمانہ کیوں‌ ہوا؟

اسی سال 2006 میں مولانا عبدالحق اور دیگر نے بلوچستان ہایئکورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی اور معزز عدالت سے استدعا کی کہ ریکوڈک کے حوالے سے 29-07-1993 سے لیکر آج تک تمام معاہدے اور لین دین کو غیر آئینی اور غیر قانو نی قرار دیا جائے۔ بلو چستان ہائی کورٹ نے 26 جون 2007 کو یہ پٹیشن مسترد کرتے ہو ئے خارج کر دی۔

اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمی سپریم کو رٹ میں اپیل نمبر 796/2007 دائر کی گئی اور آئین پاکستان کی شق نمبر 184(3) کے تحت کئی دوسرے لوگوں نے بھی درخواستیں جمع کروائی جن پر سپریم کو رٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری صا حب کی سربراہی میں تین رکنی بنچ (جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید) نے 7جنوری 2013 کو بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کرتے ہو ئے 181 صفحات پر مبنی فیصلے میں 23-07-1993 کے معاہدے اور اس کے بعد ہونے والے تمام معاہدوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ٹیتھیان کمپنی کے لائسنس کو بھی منسوخ کر دیا۔

ریکوڈک کیس میں جرمانہ کیوں‌ ہوا؟ کابینہ اجلاس میں ذمہ داران سے متعلق بڑا فیصلہ،…

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ٹیتھیان کمپنی نے 29-07-1993 کے معا ہدے کی شق اور پاکستان اور آسٹریلیا میں ایک باہمی معاہدہ (Investement Treaty between Pakistan and Australia) کی روشنی میں دوہزار بارہ میں عالمی بینک کے ادارے انٹر نیشنل سنٹر فارسیٹلمنٹ آف ڈسپیوٹس میں پاکستان پر تقریبا سولہ ارب ڈالر جرمانے کا دعوی کر دیا تھا۔

اس دعوے کا فیصلہ کرتے ہو ئے آئی سی آیس ڈی نے پاکستان پر تقریبا پانچ ارب ستانوے کروڑ ڈالر کا جر مانہ کر دیا ہے اور ذرائع کے مطابق اس فیصلے میں اہم بات پاکستان کے مشہور ڈاکٹر ثمر مند مبارک کا وہ بیان ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان کو ڈھائی ارب ڈالر سالانہ کی آمدن متوقع ہے لہذ ا ٹر بیونل نے اس بات کو بنیاد بناتے ہوئے لکھا ہے کہ جہاں پاکستان کواتنا بڑ ا فائد ہ ہو رہا ہے وہاں اس کمپنی کو اسکے نقصان کا ضرور معاوضہ ملنا چاہیے۔

یہاں یہ بات کرنا بہت ضروری ہے کہ اس فیصلے سے پہلے پاکستان کے پاس مواقع تھے کہ وہ اس کمپنی کے ساتھ عدالت کے باہر کوئی تصفیہ کر لیتا اور روپورٹس کے مطابق اس تناظر میں کچھ کوششیں بھی کئی گئی۔ اس سلسلے میں بر طانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر کی بیوی جو کہ پاکستان کی طرف سے آئی سی آیس ڈی میں پیش ہو رہی تھی نے بھی یہی تجویز کیا تھا کہ اس معاملے کو مقدمے کے فیصلہ آنے سے قبل باہمی طور پر نمٹایا یا جائے۔ قانونی نقطہ نظر سے پاکستان کے پاس اب بھی اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کا راستہ موجود ہے اور جس کے فیصلے کو بھی دو سے تین سال لگ سکتے ہیں۔

https://twitter.com/lrshadbatti336/status/1191381061470769152?s=08

اب یہ ہماری حکو مت پر منحصر ہے کہ وہ کیا اقدامات کرتی ہے کیونکہ ملک پہلے ہی کمزور معاشی صورتحال کا شکار ہے اور آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالرز کے قرضے کا معاہدہ کر چکا یہ اور یہ جرمانے کی رقم بھی تقریبا اتنی ہی ہے۔

چھ آئینی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ نوشتہ دیوار تھا کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مجموعی طور پر ریاست پاکستان کے لیے آسٹریلیا کے ساتھ پہلے سے مو جو د (Investement Treaty between Pakistan and Australia) کے اور کئی بین الااقو می قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

Leave a reply