پنجاب انتخابات،نظر ثانی کے قوانین کا اطلاق ہو چکا ہے،اٹارنی جنرل

0
56
supreme

اٹارنی جنرل پاکستان نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ 2023 کی کاپی اور نوٹیفکیشن سپریم کورٹ جمع کروا دیا

آرٹیکل 184 کے تحت مقدمات کی نظرثانی درخواستوں میں سپریم کورٹ اپیل کی طرز پر سماعت کرے گی، ایکٹ
ایکٹ کا دائر کار اس قانون کے بننے سے پہلے کے فیصلوں پر بھی ہو گا، نظرثانی درخواست کی سماعت لارجر بینچ کرے گا، لارجر بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس کا فیصلہ سنانے والے ججز سے زیادہ ہوگی، 184(3)کے فیصلے کے خلاف 60روز میں اپیل دائر کی جاسکے گی، نظر ثانی میں اپنی مرضی کا وکیل مقرر کیا جا سکے گا،ایکٹ کا دائرہ کار سپریم کورٹ و ہائیکورٹس کے فیصلے اور رولز پر بھی ہو گا،ایکٹ نافذ ہونے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین بھی ایکٹ سے فائدہ اٹھا سکیں گے

سپریم کورٹ ،پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت ہوئی ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں ،اٹارنی جنرل روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ کے نظر ثانی کے قوانین منظور ہو چکے ہیں،سپریم کورٹ کے نظر ثانی کے قوانین کا اطلاق ہو چکا ہے ،سپریم کورٹ کے نظر ثانی کے قوانین کا اطلاق جمعے سے ہوا، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسی لیے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار آرٹیکل 184 تھری کے کیسز میں نظر ثانی کا قانون بنایا گیا ہے،سپریم کورٹ کے نظر ثانی اختیار کو وسیع کیا گیا ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جمعرات کو جوڈیشل کمیشن والا کیس مقرر ہے،آپ اس بارے بھی حکومت سے ہدایات لے لیں،نیا قانون آچکا ہے ہم بات سمجھ رہے ہیں،آج سماعت ملتوی کر دیتے ہیںتحریک انصاف کو بھی قانون سازی کا علم ہوجائے گا،چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کو جو کیس مقرر ہے اس پر بھی ہدایات لے لیں، یہ عدالت عدلیہ کی آزادی کے قانون کو لاگو کرتی ہے، سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 184 تھری کے دائرہ اختیار کے کیسز میں نظر ثانی ہونی چاہیے، سپریم کورٹ کے ہی فیصلے آرٹیکل 187 کے تحت نظر ثانی کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کا راستہ دے رہے ہیں، جج کی جانبداری کا بھی معاملہ اٹھایا گیا ہے،کیوریٹیو ریویو کا جو معاملہ آپ نے اٹھایا اس کو بھی دیکھ رہے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ دوسری جانب سے کون آیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ علی ظفر آج نظر نہیں آئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے علی ظفر کو کچھ برا کہا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے بیرسٹر علی ظفر کو کچھ نہیں کہا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم نامہ پڑھا ہوگا ذہن میں رکھیں کہ عدالت نے کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا عدالت نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے ،خفیہ ملاقاتوں سے معاملات نہیں چل سکتے یہ تاریخی ایکسیڈنٹ ہے کہ چیف جسٹس صرف ایک ہی ہوتا ہے ہم نےمیمو گیٹ،ایبٹ آباد کمیشن اورشہزاد سلیم قتل کے کمیشنز کا نوٹیفکیشن دکھایا تمام جوڈیشل کمیشنز چیف جسٹس کی مرضی سے تشکیل دیے جاتے ہیں کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کارسے آئیں میں خود پر مشتمل کمیشن تشکیل نہیں دوں گا کسی اورجج سے تحقیقات کرائی جاسکتی ہیں یہ سیاسی پارہ معیشت اورامن و امان کو بہتر نہیں کرے گا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کو فی الحال ملتوی کر رہے ہیں، سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی گئی،

سردار تنویر الیاس کی نااہلی ، غفلت ، غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری کھل کر سامنے آگئی 

تحریک انصاف کی صوبائی رکن فرح کی آڈیو سامنے

عابد زبیری نے مبینہ آڈیو لیک کمیشن طلبی کا نوٹس چیلنج کردیا

آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کر دیا

Leave a reply