پنجاب کا اگلے مالی سال 2020-21 کا بجٹ پیش ، باغی ٹی وی کے قارئین پوری تقریر ملاحظہ فرمائیں

0
40

پنجاب کا اگلے مالی سال 2020-21 کا بجٹ پیش ، باغی ٹی وی کے قارئین پوری تقریر ملاحظہ فرمائیں

باغی ٹی وی رپورٹ کے مطابق پنجاب کا اگلے مالی مالی سال 2020-21ء کے لئے 2240.7ارب روپے حجم کاٹیکس فری بجٹ پیش کر دیا گیا ہے جس میں 337ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کی مد میں مختص کئے گئے ہیں۔ کوئی نیا ٹیکس لگانے کی بجائے پہلے سے عائد ٹیکسوں کی ادائیگی میں 56ارب روپے کا ریلیف پیکج بھی دیا گیا ہے۔ صوبائی وزیرخزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے آج پنجاب اسمبلی میں صوبائی حکومت کا سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ وسائل کی کمی اور ٹیکسوں میں شارٹ فال کے باوجود آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں 32فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس کا مقصد عوام کو سماجی تحفظ کی فراہمی اور معیشت کی بحالی کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کے باعث پیدا ہونے والی معاشی اور سماجی صورتحال کے پیش نظر حکومت پنجاب آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا رہی۔ بجٹ میں جاریہ اخراجات کو حتی الامکان حد تک کنٹرول میں رکھتے ہوئے رواں مالی سال سے صرف 1.5فیصد زائد کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو 13کھرب 18ارب روپے ہے۔ بجٹ میں اختراعی (innovative) فنانسنگ کے لئے 25ارب روپے اور غیر ملکی فنڈ سے چلنے والے منصوبہ جات کے لئے 133.7ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ 337 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں سے 97 ارب 66 کروڑ روپے، سوشل سیکٹر،77 ارب 86 کروڑ روپے، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، 17 ار ب 35 کروڑ روپے پیداواری، 45 ارب 38 کروڑ روپے سروسز سیکٹر، 51 ارب 24 کروڑ روپے دیگر شعبہ جات، 47 ارب 50 کروڑ روپے خصوصی پروگرامز اور 25 ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ترقیاتی منصوبہ جات کو آئندہ 5 سال تک ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ صوبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت165ارب روپے کے منصوبہ جات کی نشاندہی کر لی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجٹ2020-21 میں سماجی تحفظ کے شعبہ جات بشمول تعلیم، صحت روزگار کی فراہمی کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈز مہیا کئے جا رہے ہیں جبکہ معیشت کی بحالی کے لئے صنعت، زراعت اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار وں کے فروغ کے لئے ٹیکس میں چھوٹ کے علاوہ مارک اپ سبسڈی اور کریڈٹ گارنٹی سکیم متعارف کرائی جا رہی ہے۔ بہاولپور، لاہور اور فیصل آباد میں انڈسٹریل اسٹیٹس کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جا رہا ہے۔ ایم اینڈ ایس ایم ایز کے لئے مجموعی طور پر 8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ٹیوٹا کے تحت سکلز ٹریننگ کے لئے6 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں۔
    ہاشم جواں بخت نے کہا کہ ہم بحیثیت قوم اس وقت کورونا کے باعث غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہیں۔وبا کے اثرات ہماری معاشرتی طرز زندگی اور ملکی معیشت پر واضح نظر آ رہے ہیں۔ یہ مشکل وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم قومی یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ بدقسمتی سے پچھلے کئی ادوار سے حکومتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے پاکستان کے معاشی ڈھانچے کو بیدردی کے ساتھ پامال کیا۔ پاکستان تحریک انصاف وہ واحد جماعت نے جس نے ملکی مفاد کو سیاسی مفاد سے بالاتر رکھا۔ اس بات کا اعتراف صرف پاکستان کے معاشی اداروں ہی نے نہیں کیا بلکہ عالمی اداروں نے بھی پاکستان کی نئی معاشی سمت کو درست تسلیم کیا۔ صوبائی وزیر نے نشاندہی کی کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں امسال مارچ 2020 کے اختتام تک پنجاب کے آن سورس ریونیومیں بھی23 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہو چکا تھا۔ ہم سالانہ ترقیاتی پروگرام کے 240 ارب روپے مختلف شعبہ جات میں اخراجات کے لئے جاری کر چکے تھے۔رواں مالی سال کی آخری سہ ماہی میں Covid-19 کی وبا نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس ہنگامی صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر وفاقی حکومت نے 12 کھرب 40  ارب روپے کی مالیت کا پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور جامع ریلیف پیکیج متعارف کرایا۔ حکومت پنجاب نے بھی اس احساس ایمرجنسی پروگرام میں 8 ارب 40 کروڑ روپے کی خطیر رقم شامل کی۔ جسکے تحت اب تک پنجاب سے تعلق رکھنے والے 43 لاکھ 79 ہزار
 (جاری)
بقیہ ہینڈ, آؤٹ نمبر 956
 خاندانوں میں 53 ارب روپے سے زائد کی خطیر رقوم تقسیم کی جا چکی ہیں۔ ہماری حکومت شروع سے ہی اپنے جاریہ اخراجات میں کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ رواں سال میں بھی حکومتی اخراجات میں حتی الامکان کمی کی گئی۔ 61 ارب روپے سے زائد کی ضمنی گرانٹس مسترد کی گئیں۔ کفایت شعاری کمیٹی کے زیر نگرانی مختلف محکموں کی اخراجات کی سفارشات میں بھی کمی کرائی گئی۔ ضمنی گرانٹس اور محکموں کی سفارشات پر کنٹرول سے ایک ارب 50 کروڑ روپے سے زائد کی بچت کی گئی۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی دوراندیشی اور قائدانہ صلاحیتوں کے طفیل حکومت پنجاب نے رواں مالی سال میں کورونا وائرس کی آفت سے نمٹنے کے لئے نہایت مہارت سے بجٹ کی سمت ازسرنو متعین کی۔ ہنگامی بنیادوں پر 43 ارب روپے سے زائد کا بندوبست کیا گیا۔ہاشم جواں بخت نے کہا کہ کاروباری طبقے اور عوام کی سہولت کے لئے 18 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس ریلیف دیا گیا جس کی مثال پنجاب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ 25 ارب روپے سے زائد کی رقوم صحت کے دونوں محکموں، محکمہ زکوٰۃ اور پی ڈی ایم اے کو دی گئیں تاکہ وہ عوام کو صحت کی بہترین سہولیات اور فوری ریلیف مہیا کر سکیں۔ کورونا وبا میں فرنٹ لائن پر کام کرنے والے ڈاکٹرز اور سٹاف کو دوران ڈیوٹی ماہانہ بنیاد پر ایک اضافی تنخواہ کی منظوری دی گئی۔ آئندہ مالی سال میں Federal Divisible Pool میں محصولات کی وصولی 49 کھرب 63 ارب روپے متوقع ہے۔ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت صوبہ پنجاب کو 14کھرب 33 ارب روپے مہیا کئے جائیں گے۔صوبائی محصولات میں 317 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ریونیو شارٹ فال کے سبب آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری کسی چیلنج سے کم نہیں تھی۔ ہماری معاشی ٹیم نے جرأت مندی کے ساتھ اس چیلنج کو قبول کیا اور ان مشکل حالات میں ایک کاروبار دوست اورپروگریسو بجٹ پیش کیا۔

    وزیرخزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں پہلی بار بھرپور انداز میں عوام الناس کی شمولیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔عوامی شمولیت کی مناسبت سے بجٹ2020-21کو شمولیتی بجٹ سے موسوم کیا گیا ہے۔ 11 مختلف شعبہ جات جن میں تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی سرفہرست ہیں کے لئے عوامی رائے کو مدنظررکھتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ حکومت پنجاب نے موجودہ معاشی تناظر میں ”آگے بڑھو پنجاب“ کا ویژن دیا ہے جو مستقبل کے لئے معاشی ترجیحات اور حکومتی اقدامات کا لائحہ عمل طے کرے گا۔ اسی ویژن کے حصول کے لئے ”رائز پنجاب“ کے نام سے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کا یہ ٹیکس ریلیف پیکج پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا ٹیکس ریلیف پیکیج ہے۔بجٹ ریلیف پیکیج سے جہاں عوام کو ریلیف ملے گا وہاں کاروباری طبقہ بھی مستفید ہوگا۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سیلز ٹیکس آن سروسز کی مد میں ہیلتھ انشورنس اور ڈاکٹر کی کنسلٹینسی فیس اور ہسپتالوں کی فیس جو بالترتیب16اور5فیصد تھی زیرو فیصد کرنے کی تجویز ہے۔20سے زائد سروسز پر ٹیکس ریٹ 16فیصد سے کم کر کے5فیصد کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے جن میں چھوٹے ہوٹلزاور گیسٹ ہاؤسز، شادی ہال، لانز، پنڈال، شامیانہ سروسز و کیٹررز، آئی ٹی سروسز، ٹورآپریٹرز، جمز، پراپرٹی ڈیلرز، رینٹ اے کار سروسز، کیبل آپریٹرز،لیدر اور ٹیکسٹائل ٹریٹمنٹ، زرعی اجناس سے متعلقہ کمیشن ایجنٹس، آڈیٹنگ، اکاؤنٹنگ اور ٹیکس کنسلٹینسی سروسز، فوٹوگرافی اور پارکنگ سروسز شامل ہیں۔پراپرٹی بلڈرز اورڈویلپرزسے بالترتیب 50روپے فی مربع فٹ اور 100روپے فی مربع گز ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے۔ جو شخص پراپرٹی بلڈر اور ڈویلپر کے طور پر ٹیکس ادا کرے گا اس کو کنسٹرکشن سروسز سے ٹیکس کی چھوٹ ہو گی۔ریسٹورنٹس اور بیوٹی پارلرز پر بذریعہ کیش ادائیگی کرنے والے صارفین سے 16فیصد جبکہ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کی صورت میں 5فیصد ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے جو معیشت کو ڈاکیومنٹ کرنے میں مدد دے گی۔آئندہ مالی سال کے لئے پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی دو اقساط میں کی جا سکے گی۔ 30 ستمبر 2020 تک مکمل ٹیکس کی ادائیگی کی صورت میں ٹیکس دہندگان کو 5 فیصد کی بجائے 10 فیصد چھوٹ دی جائے گی اور مالی سال 2020-21 کے سرچارج کی وصولی پر بھی مکمل چھوٹ ہو گی۔انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی کی شرح کو 20 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کئے جانے کی تجویز ہے۔ بجٹ میں تمام سینما گھروں کو 30 جون 2021 تک انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی سے مستثنیٰ کئے جانے کی تجویز ہے۔پراپرٹی ٹیکس کے نئے ویلیوایشن ٹیبل کا اطلاق بھی ایک سال کے لئے موخر کر دیا گیا ہے۔ گاڑیوں کی رجسٹریشن اور
(جاری)
بقیہ ہینڈ, آؤٹ نمبر 956
ٹوکن ٹیکس کی مکمل ادائیگی کی صورت میں 10 فیصد کی بجائے 20 فیصد چھوٹ دی جائے گی۔ای پے پورٹل کے تحت آن لائن ادائیگی کی صورت میں 5 فیصد کا خصوصی ڈسکاؤنٹ دیا جائے گا۔سرکاری زمینوں کی لیز، کرایہ داری، فروخت وغیرہ (Land Utilization Policy)کی مد میں بورڈ آف ریونیو کے محصولات میں 20 ارب روپے کی وصولی متوقع ہے۔ آئندہ مالی سال میں سٹیمپ ڈیوٹی کی موجودہ شرح کو 5 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ کنسٹرکشن انڈسٹری کو فروغ ملے گا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ہاشم جواں بخت نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کے ویژن کے مطابق کاروبار میں آسانی کے لیے ایک اور تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے مقامی حکومتوں کے محصولات سے کاروبار کے لائسنس سے متعلقہ فیس صفر فیصدکرنے کا اصولی فیصلہ لیا گیا ہے۔ حکومت پنجاب کے اس اقدام سے مقامی آبادیوں کو تقریباً 60 کروڑ سالانہ کا ٹیکس ریلیف ملے گا۔صوبے کی معاشی صورت حال کے پیش نظر حکومت نے آئندہ مالی سال کے لئے جاریہ اخراجات کو تقریباً رواں      مالی سال کی سطح پر منجمد کیا ہے۔ جاریہ اخراجات کا حجم 12کھرب 99 ارب روپے سے بڑھا کر 13کھرب 18 ارب روپے کیا گیا ہے۔ جاریہ اخراجات کا یہ حجم گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں صرف 1.5 فیصد زائد ہے۔ اس سلسلے میں تنخواہوں کا بجٹ 337 ارب 60 کروڑ روپے پر منجمد کیا جا رہا ہے۔پنشن ریفارمزکے ذریعے 19 ارب روپے سے زائد کی بچت کی تجویز ہے۔سروس ڈیلیوری پراخراجات میں بھی 10 ارب روپے سے زائد کی کمی کی گئی ہے۔     مقامی حکومتوں کے بجٹ میں 10 ارب روپے سے زائد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تمام تر معاشی چیلنجز اور وسائل کی کمی کے باوجود ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ہم اپنے ترقیاتی پروگرام پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں۔آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کے لئے مجموعی طور پر 337 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔51 ارب 24 کروڑ روپے متفرق شعبہ جات، 47 ارب 50 کروڑ روپے سپیشل پروگرام اور 25 ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی مد میں رکھے گئے ہیں۔پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے منصوبہ جات میں لاہور رنگ روڈ SL-4، ملتان وہاڑی سڑک کو دو رویہ کرنے کا منصوبہ، نالہ لئی ایکسپریس وے کی تعمیر، واٹر میٹرز کی فراہمی اور راولپنڈی رنگ روڈ کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں۔پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے تمام ترقیاتی منصوبوں کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر اس شعبہ کو آئندہ پانچ سال کے لئے سیلز ٹیکس آن سروسز سے مکمل استثنیٰ حاصل ہو گا۔ہماری کوشش ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایسے اقدامات اور منصوبے لائے جائیں جن سے عوام کو زیادہ سے زیادہ باعزت روزگار کے مواقع میسر ہو سکیں۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروگرام اور پائیدار ترقیاتی مقاصدکے حصول کے پروگرام کے تحت جاری منصوبوں کی تکمیل کیلئے خاطر خواہ رقوم مختص کی جا رہی ہیں۔پنجاب کی معاشی ترقی میں مائیکرو، سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز سیکٹر(MSME) ہمیشہ سے کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ایم ایس ایم ای میں ٹیکسز میں استثنیٰ کے علاوہ ایک نیا اضافہ دیہی انٹرپرائزز کا فروغ بھی شامل ہے۔MSMEمیں مارک اپ سبسڈی کے علاوہ کریڈٹ گارنٹی سکیم بھی متعارف کروائی جائے گی۔مجموعی طور پر MSME کے شعبہ کے لئے 8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ حکومت کی اس Intervention سے مارکیٹ میں مجموعی طور پر اس رقم کا تقریباً 4 سے 5گنا Capital Injection متوقع ہے۔بجٹ میں سکلز ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے 4 ارب 90 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ٹیوٹاکے نصاب میں دوررس تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں تاکہ ہمارا سکلز کا شعبہ عالمی معیار سے ہم آہنگ ہو سکے۔معاشرے کے غریب طبقے کی بحالی ہمیشہ سے وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ پنجاب کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے لیے تقریباً 4 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ جس سے پنجاب احساس پروگرام پر عملدرآمد کیا جائے گا۔پنجاب احساس پروگرام کے تحت بزرگوں کے لیے باہمت بزرگ پروگرام، فنکاروں کے لیے صلہئ فن، خواجہ سراؤں کے لیے مساوات پروگرام، تیزاب گردی سے متاثرہ خواتین کے لئے نئی زندگی پروگرام، بیواؤں اور یتیموں کے لیے سرپرست پروگرام جبکہ سویلین شہداء کے لیے خراج الشہداء پروگرام شامل ہیں۔ سوشل ویلفیئر کے لئے ہر ڈویژنل ہیڈکوارٹر پر پناہ گاہیں بنائی جا رہی ہیں۔خواتین پر تشدد کے تدارک کے لئے لاہور اور راولپنڈی میں دو نئے مراکز قائم کئے جا رہے ہیں۔معذوروں کی بحالی کے لئے دو نئے نشیمن سنٹرز فیصل آباد اور بہاولپور میں مکمل کئے جا رہے ہیں۔پنجاب
(جاری)

بقیہ ہینڈ, آؤٹ نمبر 956
کے 10 اضلاع  سے جنوبی پنجاب سے غربت کے خاتمے کا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے ان دس اضلاع میں بہاولنگر، بہاولپور، رحیم یار خان، ڈی جی خان، مظفرگڑھ، راجن پور، لیہ، بھکر، خوشاب، میانوالی شامل ہیں۔    پروگرام کے تحت غربت میں کمی لانے اور روزگار کی فراہمی کے لئے 2 ارب روپے سے زائد مالیت کے مختلف منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔غریب خواتین کی معاشی خودمختاری کو یقینی بنانے کیلئے پنجاب کے9 اضلاع سے جن میں وہاڑی، چینوٹ، سرگودھا، پاکپتن، خانیوال، اوکاڑہ، ملتان،شیخوپورہ اور راولپنڈی شامل ہیں وویمن انکم جنریشن پروگرام اینڈ سیلف ریلائنس پروجیکٹ ونگز شروع کیا جا رہا ہے۔ونگز پروجیکٹ کے لیے بجٹ میں 1ارب 15کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔پنجاب ہیومن کیپیٹل پروجیکٹ کے تحت لوگوں کو خطِ غربت سے اوپر لانے کیلئے 5 ارب36 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی جا رہی ہے۔جنوبی پنجاب کی ترقی PTI حکومت کا عوام سے وعدہ ہے۔ جنوبی پنجاب میں بسنے والوں کی حکومتی اداروں تک رسائی آسان بنانے کے لئے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کی منظوری دی جا چکی ہے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو فعال کرنے لئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی پولیس کی آسامیاں منظور کر دی گئی ہیں۔یکم جولائی سے یہ افسران اپنے فرائض انجام دینا شروع کر دیں گے۔     16 محکموں پر مشتمل جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے لئے تمام ابتدائی کام مکمل کر لیا گیا ہے۔سیکرٹریٹ کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایک ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔یہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا عوام سے کئے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لئے ایک اہم قدم ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صحت کے شعبہ کے لئے مجموعی طور پر 284 ارب 20 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ محکمہ صحت کے جاریہ اخراجات کے لئے 250 ارب 70کروڑ روپے جبکہ ترقیاتی اخراجات کے لئے 33 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ Covid-19کی وجہ سے صحت کے شعبہ پر خاصا دباؤ ہے تاہم حکومت اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس وباء پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔آئندہ مالی سال میں حکومت نے اس وباء کو کنٹرول کرنے کے لیے مجموعی طور پر 13 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ ادویات کی خریداری کا بجٹ گزشتہ برس کے 23 ارب روپے کے مقابلے میں 26 ارب روپے سے زائد کر دیا گیا ہے۔محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کے تحت آئندہ مالی سال میں 6 ارب روپے سے زائد کی لاگت سے ڈی جی خان، گوجرانوالہ اور ساہیوال کے DHQs ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن اور عدم موجود سہولیات کی فراہمی، انسٹیٹیوٹ     آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن راولپنڈی، نشترII- ہسپتال ملتان، مدر اینڈ چائلڈ بلاک سرگنگا رام ہسپتال، اَپ گریڈیشن آف ریڈیالوجی /سپیشلٹیز ڈیپارٹمنس سروسز ہسپتال لاہور، چلڈرن ہسپتال لاہور میں انسٹیٹیوٹ آف پیڈیاٹرک کارڈیالوجی اینڈ کارڈیک سروے کے منصوبے مکمل کیے جائیں گے۔پنجاب کے پسماندہ علاقوں بشمول جنوبی پنجاب میں ڈی جی خان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں تھیلیسیمیا یونٹ اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹ سینٹر کی اپ گریڈیشن جیسے منصوبے بھی شامل ہیں۔ وزیرآباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز، لاہور اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ لاہور میں ضروری سہولیات کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔حکومت پنجاب ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی کمی کو پورا کرنے کے لئے مجموعی طور پر 12000 سے زائد آسامیوں پر بھرتیاں مکمل کر چکی ہے۔شعبہ صحت کو فراہم کردہ یہ افرادی قوت سروس ڈیلوری کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو گی۔ حکومت پنجاب کے صحت انصاف کارڈ نے ہیلتھ کیئر کی سہولیات کا حصول آسان بنا دیا ہے۔ صحت انصاف کارڈ اس وقت تک پنجاب کے 50 لاکھ خاندانوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے۔آئندہ مالی سال میں اس پروگرام کا دائرہ کار پورے صوبے تک پھیلا یا جا رہا ہے اس مقصد کے لیے اگلے مالی سال میں 12 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے ترقیاتی بجٹ کے لئے 11 ارب 46 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔پرائمری ہیلتھ اینڈ کیئر کے بجٹ سے پسماندہ علاقوں میں واقع DHQ ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن، نئے مدر اور چائلڈ ہسپتالوں کا قیام اور تمام DHQ اور پندرہ THQ ہسپتالوں کی ری ویمپنگ کے پروگرام مکمل کیے جائیں گے۔آئندہ سال کے بجٹ میں ٹی بی، ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے کنٹرول اور کرونا کی وباکی روک تھام کے لئے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ پرائم منسٹر ہیلتھ
(جاری)

بقیہ ہینڈ, آؤٹ نمبر 956
انیشیٹوپروگرام کے تحت صوبے میں 196 بنیادی مراکز صحت کو ہفتے میں سات دن اور چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کے لئے ایک ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔آئی آر ایم این سی ایچ اینڈ نیوٹریشن پروگرام کے لئے ایک ارب 70 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
    ہاشم جواں بخت نے کہا کہآئندہ مالی سال میں تعلیم کے شعبہ کے لئے مجموعی طور پر 391 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔ جس میں جاریہ اخراجات کی مد میں 357 ارب روپے جبکہ ترقیاتی مقاصد کے لئے 34 ارب 55 کروڑ روپے سے زائد کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لئے مجموعی طور پر 350 ارب 10 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں سے 27 ارب 60 کروڑ روپے ترقیاتی بجٹ کا حصہ ہیں۔    تعلیم کے بجٹ سے پانچ لاکھ سے زائد طالبات کو وظائف کی فراہمی اور تمام طالب علموں کو مفت درسی کتب کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔سکول کونسلز کے لئے 13 ارب 50 کروڑ روپے اور دانش سکول کے تعلیمی اخراجات کے لئے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کے تحت PEF اور PEIMA کے لئے 22 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔بجٹ میں سکولوں کی اپ گریڈیشن، اضافی کلاس رومز کی تعمیر، کمپیوٹر لیب کا قیام اور بوسیدہ عمارات کی ازسرنو تعمیر کے منصوبے بھی شامل ہیں۔اس سے قبل پنجاب کے تمام اضلاع میں 1227 ایلیمنٹری سکولوں کو ہائی سکولوں میں اپ گریڈ کیا جا چکا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے سلسلہ میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لئے مجموعی طور پر 37 ارب 56 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔محکمہ ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں 3 ارب 90کروڑ روپے ترقیاتی بجٹ کا حصہ ہیں۔آئندہ مالی سال میں ہائر ایجوکیشن کے ہم منصوبہ جات میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں 7 نئی یونیورسٹیوں کا قیام اور موجودہ یونیورسٹیوں میں ضروری سہولیات کی فراہمی کے منصوبے شامل ہیں۔ مستحق اور ذہین طلباء و طالبات میں تعلیمی وظائف کی فراہمی اور وزیر اعلیٰ میرٹ سکالرشپ پروگرام کے لئے بھی رقوم مختص کی جا رہی ہیں۔ لٹریسی اور غیر رسمی تعلیم کے لئے مجموعی طور پر 3 ارب روپے اور سپیشل ایجوکیشن کے شعبہ کے لئے مجموعی طور پر 80 کروڑ روپے سے زائد کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔
    وزیرخزانہ نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں اس وقت سب سے بڑا چیلنج تیار فصلوں پر ٹڈی دل کا حملہ ہے۔ حکومت پنجاب اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر اہم اقدامات اٹھا رہی ہے۔ٹڈی دل اور دیگر قدرتی و ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لئے مجموعی طور پر 4 ارب روپے سے زائد رقم مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔    زراعت کے بجٹ سے لوکسٹ پر کنٹرول کے لیے ایک ارب روپے پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو دئیے جائیں گے۔    آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زراعت کے شعبہ کے لئے مجموعی طور پر 31 ارب 73 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔زرعی شعبہ کے بجٹ سے کھادوں اور بیجوں پر سبسڈیز اور فارم میکنائزیشن، واٹر کورسز کی لائننگ اور شمسی توانائی سے چلنے والے ڈرپ سپرنکلر سسٹم جیسے منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔ وزیراعظم کے ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام برائے زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافہ کے لئے 1 ارب 68 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ گندم کی خریداری کے لئے آئندہ مالی سال میں فوڈ ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے لئے 331 ارب 90 کروڑ روپے مختص کئے ہیں۔ رواں مالی سال میں بھی حکومت پنجاب نے اپنا گندم کا 4.5 ملین میٹرک ٹن کا تاریخی ٹارگٹ حاصل کیا۔حکومت پنجاب نے جنوبی پنجاب اور بارانی علاقہ جات کی ترقی کے لئے 70 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی ہے جس کے تحت چھوٹے ڈیمز، تالاب اور کنوؤں کی تعمیرکی جائے گی۔ ایجنسی برائے ترقی بارانی علاقہ جات اورچولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ماسٹر پلان بنانے کے لئے فزیبیلٹی سٹڈی اور کسانوں کے لئے سولر اریگیشن سسٹم کے منصوبے شامل ہیں۔  حکومت پنجاب نے مالی سال 2020-21ء میں لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کے لیے مجموعی طور پر 13 ارب 30 کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے۔وزیراعظم پاکستان کے گرین پاکستان سونامی پروگرام کے تحت حکومت پنجاب بھی صوبے بھر میں سرسبز انقلاب لانے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ شجر کاری کافروغ بڑھتی ہوئی آلودگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں پر قابو پانے میں معاون ہو گا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں محکمہ جنگلات کے لئے مجموعی طور پر 8 ارب 73 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔
(جاری)
بقیہ ہینڈ, آؤٹ نمبر 956
حکومت پنجاب بڑے شہروں کے لئے مربوط اور جامع ترقیاتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پنجاب انٹرمیڈیٹ سیٹیز امپروومنٹ انویسٹمنٹ پروگرام کے تحت ساہیوال اور سیالکوٹ کے لیے 8 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔     16 شہروں میں ورلڈ بنک کی مدد سے تقریباً 32 ارب روپے کی لاگت سے پنجاب سٹیز پروگرام بھی جاری ہے۔پنجاب سٹیز پروگرام کے تحت مریدکے، وزیرآباد، گوجرہ، جڑانوالہ، جھنگ، کمالیہ، اوکاڑہ، بہاولنگر، بورے والا، خانیوال، وہاڑی، کوٹ ادو، ڈسکہ، حافظ آباد، جہلم، کامونکی کی ماسٹر پلاننگ کا منصوبہ بنایاگیا ہے۔پانی کی فراہمی ا ور نکاسی، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تنصیب، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور پبلک پارکس کو بہتر بنانے کے اہم منصوبہ جات کی مکمل کیے جائیں گے۔پنجاب حکومت نے بلدیاتی سطح پر پنجاب میونسپل سروسز پروگرام (PMSP) 23 ارب 20 کروڑ روپے کی     لاگت سے شروع کیا ہے جس کا مقصد بنیادی بلدیاتی سہولیات کی فراہمی میں بہتری لانا ہے۔حکومت پنجاب نے لینڈ ریونیو اتھارٹی کے زیر اہتمام قانون گوئی کی سطح پر 2 ارب 14 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے اراضی ریکارڈ سنٹر کے قیام کے لئے 46 کروڑ 60 لاکھ روپے کی رقم مختص کی ہے۔ اراضی سینٹر کے قیام سے سروس ڈیلیوری میں مزید بہتری اور سہولت پیدا ہو گی۔ پی ٹی آئی کی حکومت لوگوں کو سستے نرخوں پر اشیاء ضروریہ کی فراہمی کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لئے سستا ماڈل بازار نیٹ ورک کے دائرہ کار کو ہر تحصیل کی سطح تک بڑھایا جائے گا۔ پنجاب کی 62 تحصیلوں میں ریسکیو 1122 سروس کے آغاز کے لئے 4 ارب 16 کروڑ روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ایک ارب 3کڑوڑ کی لاگت سے 27 اضلاع میں موٹر سائیکل ایمبولینس سروس کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ سیف سٹی اتھارٹی کے تحت پی پی آئی سی تھری راولپنڈی مرکز کے 9 ارب 23 کروڑ روپے کی مالیت کے     منصوبے کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے ویژن کے عین مطابق نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام آئندہ مالی سال میں بھی جاری رہے گا۔نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے لیے پنجاب کے بجٹ میں، 1 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے جو وفاق کے 30 ارب روپے کے پیکیج کے علاوہ ہے۔نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے منصوبہ سے عوام کو سستے گھروں کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی۔پنجاب حکومت نے ایک جامع حکمت عملی کے تحت صاف پانی کی فراہمی کے لیے آبِ پاک اتھارٹی تشکیل دی ہے۔آب پاک اتھارٹی کے لئے 2 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔  اتھارٹی کے تحت لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان اور راولپنڈی میں ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے جائیں گے جس کے لیے قریباً 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔صوبہ پنجاب میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لیے پچھلے سال دیہی علاقوں تک رسائی کا پروگرام نیا پاکستان منزلیں آسان شروع کیا گیا تھا جس کا فیزI- کامیابی سے پایہئ تکمیل تک پہنچا۔    آئندہ بجٹ میں 15ارب روپے کی لاگت کے اس پروگرام کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لئے بجٹ میں 10 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اس پروگرام پر عملدرآمد سے ایک طرف لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے اور دوسری طرف کسانوں کی منڈیوں تک آسان رسائی کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں آمدورفت کے بہتر ذرائع بھی میسر ہوں گے۔پنجاب حکومت اس سال سڑکوں کی تعمیر کے نئے پروگرام پنجاب آرٹیریل روڈز امپروومنٹ پروگرام کا آغاز کر رہی ہے۔ روڈ سیکٹر کے دیگر اہم منصوبوں میں سرگودھا سے میانوالی دو رویہ سڑک کی تعمیر، دینہ سے منگلا دو رویہ سڑک کی تعمیر، ڈیرہ غازی خان میں زین سے بھارتی روڈ کی بحالی اور مخدوم پور سے سالم انٹرچینج تک سڑک کی تعمیر شامل ہیں۔ محکمہ آبپاشی کو آئندہ مالی سال کے لئے37 ارب 40 کروڑ روپے کی رقم مہیا کی جا رہی ہے۔آئندہ سال محکمہ آب پاشی کے اہم منصوبوں میں اسلام بیراج کی بحالی اور توسیع، جلال پور کینال کی تعمیر اور تریموں بیراج اور اس سے منسلک تین نہروں کی بحالی اور توسیع شامل ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے پروونشیل واٹرپالیسی اینڈ واٹر ایکٹ2019 نافذ کر دیا گیاہے۔اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد صوبہ میں پانی کے انتظام اور استعمال کو بہتر بنایا جاسکے گا۔حکومت پنجاب نے سیاحت کے لیے ایک مربوط پالیسی وضع کی ہے جس کے تحت نئے سیاحتی مراکز قائم کئے جائیں گے۔پالیسی کے تحت پہلے سے موجود مقامات پر تمام تر سہولیات مہیا کی جائیں گی۔محکمہ سیاحت پنجاب میں خصوصی طور پر مذہبی اعتبار سے مقدس مقامات کی سیاحت کو فروغ دے رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے بجٹ میں 2 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی جا رہی ہے۔
٭٭٭

Leave a reply