پرانے اور نئے طالبان میں کیا فرق. تحریر:راؤ اویس مہتاب

دشمن انتہائی گندی حرکتوں پر اتر آیا ہے۔ اور پاکستان پر گھٹیا اٹیک کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کیا سوچ رہا ہے اور پاکستان کے لیے طالبان کو کنٹرول کرنا کتنا آسان اور کتنا مشکل ہے جبکہ پرانے اور نئے طالبان میں کیا فرق ہے اس پر بھی بات کریں گے۔ اور سب سے بڑھ کر کیا دنیا جس طرح شور مچا رہی ہے کیا واقعی پاکستان افغانستان میں تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اگر ہے تو کیسے۔۔
امریکہ نے نعرہ لگایا کہ اس کی افغانستان میں نہ ختم ہونے والی جنگوں کی وجہ سے وہ اپنے گھر میں پیچیدہ مسائل پر دھیان نہیں دے پا رہا جو اسے دینا چاہیے۔ اور بہانہ بناتے ہوئے امریکہ باہر نکل گیا لیکن اس کے جھٹکے افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک میں بڑی شدت سے محسوس ہونے لگے ہیں۔
جہاں یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ طالبان اقتدار پر دوبارہ دعوی کرنے کے لیے تیار ہیں وہیں بائیڈن یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ افغانستان کا پروسی اسلامی ایٹمی ملک پاکستان کیا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان امریکہ کا افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی رہا ہے لیکن امریکہ پاکستان پر یہ سوچتے ہوئے اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے طالبان اور القائدہ سے تعلقات ہیں۔ جب اسامہ بن لادن کے خلاف اآپریشن کیا گیا تو بائیڈن اس وقت اوبامہ کے نائب صدر تھے اور اس اآپریشن کو سکرین پر مانیٹر کرتے رہے۔ لیکن اس اآپریشن کے بارے میں پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا کیونکہ خدشہ تھا کہ اطلاع پہلے ہی لیک ہو جائے گی۔ کیونکہ پاکستان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ طالبان اور ایسے عناصر کو اپنے اسٹریٹیجک اثاثوں کے طور پر دیکھتا ہے تاکہ ان کے زریعے پاکستان افغان حکومت کو کمزور کرے جو پاکستان کے نمبر ون دشمن بھارت کی نمبر ون اتحادی ہے۔ جبکہ پاکستان کا یہ کہنا ہے کہ وہ اور وقت تھا جب پاکستان طالبان کو کنٹرول کرتا تھا۔ لیکن اب یہ طالبان پاکستان کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ پاکستان ا س سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے لاکھوں لوگ یہاں پر پناہ لے چکے ہیں جس کی وجہ سے اس کی سرحدیں دہشت گردی کا شکار ہوئی ہیں۔ یہ تشدد پاکستان کے لیے بھی نقصان دہ ہے کیونکہ اس سے پاکستان کی طرف بھی دہشت گرد عناصر سر اٹھاتے ہیں۔

امریکہ کی افغانستان میں جنگ میں اگر ایک لاکھ دس ہزار افغانی شہید ہوئے ہیں تو پاکستان نے چھیاسی ہزار لوگوں کی قربانی دی ہے۔ پاکستان کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ ہمارے دشمنوں کو افغانستان میں کھلے عام ہم پر حملہ کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے،ابھی تک بائیڈن کی عمران خان سے کوششوں کے باوجود فون پر بات نہ کرنا یہ ظاہر کرتی ہے کہ بائیڈن پاکستان پر ابھی بھی اڈے حاصل کرنے کے لیے پریشر ڈالنا چاہتے ہیں جس کا پاکستان نے صاف انکار کر دیا ہے۔ امریکہ کی سرپرستی اور برطانیہ، سعودی عرب، عرب امارات کی مدد سے پاکستان اور بھارت کی صلح کی بات کی گئی جس میں ماضی کی تلخیوں کو دفنانے کی بھی بات ہو چکی ہے۔ کیونکہ عالمی طاقتوں کو پتا ہے کہ ان دونوں کی دوستی کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں ۔طالبان کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ اس کے ہمسایہ ممالک اور بڑی طاقتوں کے لیے چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ طالبان کے ذریعے افغانستان پر قبضہ کر کے اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے تاکہ افغانستان میں بھارت کے اثرو رسوخ کو چیلنج کیا جا سکے۔ جہاں چین پاکستان کے قریب آرہا ہے وہیں چین بھارت سے دور جا رہا ہے۔ ساری دنیا کو پتا ہے کہ افغانستان سپر پاورز کا قبرستان ہے تو یقینا بائیڈن بھی اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے۔ امریکہ نے یہ کہتے ہوئے افغانستان سے ٹرن لے لیا ہے کہ اسے ماضی کو بھول کر مستقبل کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ ٹرن اسی وقت درست ثابت ہوتے ہیں جب کسی کو پتا ہو کہ کہاں ٹرن لینا ہے۔ امریکہ ایک غلط ٹرن لے چکا ہے۔ جسے امریکی ، افغانی، روسی سب ہی غلط قرار دے رہے ہیں۔ اور اب اس غلطی کا الزام پاکستان پر دھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاکستان میں دشمن نے گندا کھیل شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے کبھی افغانی سفیر کی بیٹی پر تشدد کا ڈرامہ کروایا جا رہا ہے۔
کبھی ائر فورس پر الزام لگایا جا رہا ہے تو کبھی اشرف غنی پاکستان سے دس ہزار جنگجو جانے کی باتیں کر رہا ہے۔ شکست کو حقائق سے تسلیم کرنے کی بجائے ایک جھوٹ کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔افغانستان ایک سرد ماحول والا ملک ہے۔ جہاں اکثر صوبوں میں سردیوں میں برف باری اور ٹمپریچر مائنس ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ اور ملک کے بیشتر حصے برف سے ڈھکے رہتے ہیں جو نقل و حرکت اور روزمرہ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتا ہےبحثیت انسان جس کی وجہ سے زندگی کے دوسرے معمولات کی طرح ، مجاہدین کی سرگرمیاں بھی ہر سال اس سیزن کے دوران سست روی کا شکار ہوتی ہیں۔لیکن گزشتہ چند سال میں جو غیر معمولی واقعات ہوئے اس میں طالبان نے پورے سال کابل کی کٹ پتلی حکومت کو ناچ نچوایا۔ اشرف غنی کو ہر جگہ کہتے پھر رہے ہیں کہ تین ماہ میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے وہ سردیوں کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔ امریکہ بھی نکلنے کے باوجود ستمبر کی تاریخ اس لیے دے کر بیٹھا ہے کہ اس کے آفیشلی نکلنے اور سردیاں آنے میں وقفہ بہت کم رہ جائے۔اشرف غنی جو پاکستان کا دشمن ہے اور کبھی بھی پاکستان کے خلاف دراندازی سے باز نہیں آتا اب نئے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ اور اب تمام مختلف محکموں اور ترجمانوں نے مبالغہ آرائی شروع کردی ہے اور ان ساری غیر متوقع ترقی اور پیشرفت کے بارے میں جھوٹ بولنا شروع کر دیا ہے۔۔

نائب افغان صدرامراللہ صالح جیسے لوگ جو پاکستان میں روس کے خلاف جہاد کی ٹریننگ لے چکے ہیں اور اس کے بعد نہ صرف طالبان کے خلاف جنگ لڑ چکے ہیں بلکے افغان خوفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں۔ اشرف غنی نے وہی پرانے ناکام لوگوں کو اب کام کرنے کی بجائے پروپیگنڈے کی تدبیر کے طور پر مقرر کیا ہے یہ ناکام عہدے دار بے مثال جھوٹ ، جعلسازی اور پروپیگنڈے کا چکر شروع کر چکے ہیں تاکہ دنیا اور اپنے معصوم شہریوں کو گمراہ کر سکیں اور اب ان طالبان کو ختم کرنے کے دعوی کر رہے ہیں جنہیں بیس سال تک 48 ممالک کی افواج کے ہاتھوں شکست نہیں دی جاسکی۔ لیکن یہ بات اشرف غنی کو جان لینی چاہیے کہ جھوٹ ، مبالغہ آرائی اور پروپیگنڈہ کے ذریعہ طالبان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پاکستان کے پیچھے چھپا جا سکتا۔اسلامک امارات وسائل پر پابند باغی گروپ نہیں ہے اور نہ ہی ان کی جہادی انتظامیہ کی صورتحال ایسی ہے کہ آپریشنوں ، چھاپوں اور بم دھماکوں کے ذریعہ اس کو ختم کیا جا سکےاور اس کا جنگی مشن روک دیا جائے طالبان افغان سوسائٹی کا حصہ ہیں، امریکہ سمیت پوری دنیا ان سے معاہدے اور مذاکرات کر رہی ہے، وہ اپنے سیاہ اور سفید کے مالک ہیں۔یہ افغان قوم کی وسیع بغاوت ہے جس کی جڑیں اور بنیادیں گہری ہیں۔
اگر طالبان کو فتح کرنا اتنا آسان ہوتا تو پورے نیٹو ممالک جو اپنی کتابوں میں موجود تمام بہترین حکمت عملیاں جن میں ملٹری آپریشنز سمیت کارپٹ بمبنگ بھی شامل تھی افغانستان مین ازما چکے ہیں ۔لیکن ختم ہونے کے بجائے ، اس جہادی تحریک نے صرف مضبوط اور مزید علاقوں میں توسیع کی۔بے شک ملا عمر کے صف اول کے ساتھی دارالعلوم اکوڑہ خٹک یا جامعہ بنوریہ ٹاؤن کراچی کے فارغ التحصیل تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے گوتم بدھ کے مجسموں کو اڑا دیا، انہوں نے ڈیورنڈ لائن کو پر ماننٹ لائن ماننے کے سمجھوتے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے سینٹرل ایشیا سے گیس پائپ لائن سے انکار کیا اور پھر پاکستان کے لاکھ سمجھانے کے باوجود اسامہ بن لادن کی مہمان نوازی چھوڑنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ جبکہ موجودہ طالبان وہ طالبان نہیں ہیں، وہ اپنے بزرگوں کی طرح تصویر گھنچنے کے خلاف نہیں ہیں، نہ ہی وہ پاکستان کے مدرسوں کے تعلیم یافتہ ہیں، انہوں نے بیس سال جنگ میں رگڑا کھایا ہے اور ان کی تربیت میدان جنگ میں ہوئی ہے۔ انہوں نے دنیا کی سپر پاور کو شکست دی ہے۔ یہ سفارت کے آ داب بھی جانتے ہیں اور جنگ کی سٹریٹیجی بھی۔پہلی نسل کی قیادت سو فیصد پشتون اور وہ بھی جنوبی افغانستان کے پشتونوں کے ہاتھ میں تھی۔ دوسری نسل میں آپ کو پشتونوں کے ساتھ ساتھ ازبک، تاجک، ہزارہ حتی کہ بلوچ نژاد طالبان کمانڈر بھی مل جائیں گے۔طالبان کی موجودہ نسل ان تمام علاقوں پر تقریبا قبضہ کر چکی ہے جہاں ان کے بزرگ کابل پر قبضہ کرنے کے باوجود کنٹرول نہیں کر پائے تھے۔ یہ نسل سینٹرل ایشیا اور ایران سے متصل صوبوں پر قبضہ مکمل کرنے کے قریب ہے۔ پہلی نسل اگر پاکستان کے مشوروں کی محتاج تھی تو آج کی طالبان نسل قطر، ایران، ترک، روس، چین اور سینٹرل ایشیا میں مزاکرات کر رہی ہے۔

طالبان کی پرانی نسل کے مقابلے میں موجودہ نسل نہ صرف اپنے آپ کو پوری دنیا سے منوانا چاہتی ہے بلکہ اسے یہ بھی پتا ہے کہ معیشت کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اور افغانستان کا ستر فیصد بجٹ بیرونی طاقتوں کا محتاج ہے۔ طالبان امریکہ کو تعمیر کے لیے کردار ادا کرنے کی دعوت دے چکا ہے۔ طالبان کی اس نسل کو پتا ہے کہ قبضہ کرنا اآسان اور پھر اسے جاری رکھنا مشکل ہے۔تو پوری دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ اگر پاکستان کی بہت سی باتیں پرانے طالبان نے ماننے سے انکار کر دی تھی تو نئے طالبان تو بڑے کاریگر ہیں انہیں اپنی بات پر لانا اور وہ بھی امریکہ اور اشرف غنی کے لیے کتنا مشکل ہے جن سے وہ بیس سال سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے منہ پر کہتے ہیں کہ ہم نے عصر تک روزہ رکھ لیا ہے اب ہمیں مغرب سے پہلے روزہ توڑنے کا مت کہو۔۔ وہ افغانستان کے معاملات اپنی سوچ کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔اس لیے اشرف غنی میرے تمھیں ایک نصحیت ہے کہ اپنے اقتدار کی بجائے اپنے ملک اور لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سوچو۔ سچ بولو اور زمینی حقائق کو تسلیم کرو۔ ورنہ تمھارا انجام بہت بھیانک ہو گا۔

Comments are closed.