پرانی باتیں بھول کر ہم نئی چیزیں اور مہارتیں سیکھنے کا عمل بہتر بناتے ہیں،ماہرین

0
36

دماغی ماہرین کی جانب سے کی گئی نئی تحقیق کے مطابق بھولنا دراصل کچھ نیا سیکھنے ہی کی ایک صورت ہے۔

باغی ٹی وی : ’نیچر ریویوز نیورو سائنس‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع کئے گئے آئرلینڈ کے ڈاکٹر ٹوماس ریان اور کینیڈا کے ڈاکٹر پال فرینکلینڈ کے نئے نظریے کے مطابق بھولنا دراصل کچھ نیا سیکھنے ہی کی ایک صورت ہے دونوں دماغی ماہرین نے انسانی یادداشت اور سیکھنے کے عمل کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا ہے۔

کمپیوٹرکی تخلیق ورچوئل سوشل میڈیا انفلوئنسرموسیقار بننے کے لئے تیار

تحقیق میں دونوں ماہرین ڈاکٹر ریان اور ڈاکٹر پال کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا دماغ یہ بھی سیکھتا ہے کہ مختلف حالات کے تحت کون کونسی معلومات اہم ہیں اور کونسی نظرانداز کرنے کے قابل ہیں بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ ’ضروری‘ یا ’اہم‘ معلومات کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے اور ہمارا دماغ ایسی پرانی معلومات پر توجہ نہیں دیتا جو موجودہ حالات سے مطابقت نہ رکھتی ہوں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ نیوروسائنس میں کسی خاص علم یا مہارت سے متعلق یادداشت محفوظ کرنے والے دماغی خلیوں کے مجموعے ’اینگرامز‘ (engrams) کہلاتے ہیں جب ہم اس بارے میں کوئی بات یا واقعہ یاد کرتے ہیں تو اس سے متعلق اینگرامز میں سرگرمی پیدا ہوتی ہے اور یوں وہ یادداشت ہمارے ذہن میں تازہ ہوجاتی ہے۔

امریکا: میڈیکل سائنس کی دنیا میں پاکستانی ڈاکٹر کا شاندار کارنامہ،انسان میں خنزیر…

ڈاکٹر ریان اور ڈاکٹر پال کا کہنا ہے کہ تاہم، ہم تجویز کرتے ہیں کہ بھولنے کی تمام شکلوں میں سرکٹ کو دوبارہ تیار کرنا شامل ہے جو اینگرام سیلز کو قابل رسائی حالت (جہاں انہیں قدرتی یاد کرنے کے اشارے کے ذریعے دوبارہ فعال کیا جا سکتا ہے) سے ناقابل رسائی حالت میں تبدیل کرتا ہے (جہاں وہ نہیں کر سکتے)۔ بہت سے معاملات میں، بھولنے کی شرح ماحولیاتی حالات کے مطابق وضع کی جاتی ہے اور اس لیے ہم تجویز کرتے ہیں کہ بھول جانا نیوروپلاسٹیٹی کی ایک شکل ہے جو اینگرام سیل کی رسائی کو اس انداز میں تبدیل کرتی ہے جو توقعات اور ماحول کے درمیان مماثلت کے لیے حساس ہے۔ مزید برآں، ہم یہ قیاس کرتے ہیں کہ بھولنے سے وابستہ بیماری کی حالتیں بھولنے کے قدرتی طریقہ کار کو ہائی جیک کر سکتی ہیں، جس کے نتیجے میں اینگرام سیل کی رسائی کم ہو جاتی ہے اور یادداشت کی کمی ہوتی ہے۔

لکھنے کی بجائے صرف سوچ کر ٹویٹ کرنے کا کامیاب تجربہ

دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ بھولنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ یاد ہمارے ذہن سے غائب ہوجائے، بلکہ ہم ضرورت پڑنے پر اس یاد سے متعلق اینگرامز میں سرگرمی پیدا نہیں کر پاتے بظاہر یہ ایک خرابی ہے درحقیقت اس کا بہت فائدہ ہے کیونکہ جیسے جیسے ہمارے سیکھنے کا عمل آگے بڑھتا ہے، ویسے ویسے پرانی باتوں کا زیادہ تعداد میں یاد رہ جانا ہمارے اکتساب کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے-

خواجہ سراؤں پر تشدد کی رپورٹنگ کیلئے موبائل ایپ تیار

لہذا، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پرانی باتیں بھول کر ہم نئی چیزیں اور مہارتیں سیکھنے کا عمل بہتر بناتے ہیں یعنی صحت مند انسانی دماغ باقاعدہ طور پر یہ بھی سیکھتا ہے کہ ’بھلایا‘ کیسے جائے، تاکہ وہ بدلتے ہوئے ماحول اور حالات سے بہتر طور پر ہم آہنگ کرنے کےلیے تیار کرتا رہے اس دوران دماغ کے خلیے تو ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں مگر اِن میں سرگرمی/ تحریک میں تبدیلی آجاتی ہے جسے ہم ’بھول جانا‘ قرار دیتے ہیں۔

پرانے اور گہرے زخموں پر نظر رکھنے والی” پٹی” وی کئیر

غرض کہ نیا سیکھتے دوران ہمارا دماغ مختلف اینگرامز کو تحریک دینا اور مختلف یادوں کو تازہ کرنا سیکھتا ہے وہ یادیں جو اس کے کام کی ہوتی ہیں غیر متعلقہ یادوں کو وہ نظرانداز کردیتا ہے، تاہم یہ کہنا غلط ہے کہ ہم انہیں بھول جاتے ہیں وہ یادیں ہمارے ذہن میں ہوتی ہیں لیکن بے حس و حرکت رہتی ہیں۔

Leave a reply