‏پُرانے وقتوں کی چار جماعتیں پاس تحریر : بشارت محمود رانا

‏تعلیم جو کہ ہر انسان کیلئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ جسم سے روح کا تعلق ہو کیونکہ یہ تعلیم و تربیت ہی ہے جو انسانوں اور جانوروں میں فرق بتلاتی ہے۔ اور میری آج کی یہ تحریر موجودہ میٹریلائیزڈ دور میں ہمارے بچوں کو ملنے والی بڑی بڑی ہائی کلاس ڈگریوں کے باوجود بھی وہ ہمارے اسلامی و معاشرتی اصولوں سے بڑی حد تک ناواقفیت کی وجہ سے ایک نامکمل انسان بن رہے ہیں۔

‏اور اس کے برعکس پرانے وقتوں میں جب کہ اِن ڈگریوں کے بغیر ہی اپنے گھر کے بزرگوں اور مسجد یا سکول سے حاصل شدہ معمولی تعلیم و تربیت کے باوجود بھی اپنے مضبوط اخلاق و کردار سے نظر آنے والے ایک مکمل اور کامیاب انسان بننے کے بارے میں ہے۔

‏اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ دوست میری اس بات سے متفق ہوں اور کچھ دوست اختلاف بھی کریں۔ مگر! میں اتنا کہتا چلوں کہ یہ سب میں اپنے ذاتی مشاہدے، تجزیے اور علم کی استطاعت میں رہتے ہوئے لکھ رہا ہوں گا۔

‏علم جو کہ کسی کی میراث نہیں ہوا کرتا اور جو کوئی بھی اس کو حاصل کرنے کی لگن رکھتا ہو اور اس کے لیے کوشش کرتا ہو یہ اسی کے پاس چلا جاتا ہے۔ اسی طرح علم رکھنے والے کو اپنے پاس علم کے ہونے کا ثبوت کے طور پر کسی کو دکھانے کے لیے ناں تو کوئی ورق اور ناں ہی ڈگری نامی کسی شے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ یہ تو اُس کے عمل، بول چال اور اخلاق و کردار سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ کسی بھی شخص کی علمی اور ادبی استطاعت کتنی ہو سکتی ہے۔

‏اگر ہم وقت کے حساب سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں اور اپنے بزرگوں کی زندگی پہ نظر دوڑائیں اور ان کی باتوں کا مشاہدہ کریں تو ہمارے لیے اس کا اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں ہو گا۔ جیسا کہ اگر ہم اُن کا دینی میدان میں معاملات پر بات چیت کا انداز اور اُن کے پاس معقول دینی علم کا ہونا اور پھر اُس پہ اُن کا عملی طور پہ مضبوط کردار کا بھی ہونا، الغرض! آپ کو دینی لحاظ سے ان میں ایک مکمل اور بہترین انسان دیکھنے کو ملے گا۔

‏اور اسی طرح اگر ہم اُن کا دنیاوی زندگی میں اپنے معاملات کو دیکھنا، مسائل کو سمجھنا اور پھر اُن کے مطابق بہترین اپروچ اپناتے ہوئے انہیں حل بھی کرنا، اُن کے دنیاوی علمی ہُنر کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔

‏اور پھر اگر اُن کا معاشرتی و خاندانی لحاظ سے زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اُن کا اپنے بڑوں و بزرگوں کے ساتھ انتہائی ادب و احترام سے پیش آنے کا طریقہ، اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ اُن کا حُسنِ سلوک، اُن کا بچوں کے ساتھ پیش آنے کا شفقت و مہربانی والا انداز اور یہاں تک کہ اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ شرارتی اور مہذب طریقے سے کیا جانے والا مذاق کا انداز بھی انتہائی دیدنی ہوتا ہے۔

‏اور یہ سب کچھ انہیں کسی مہنگے سکول، کالج یا یونیورسٹی سے حاصل کی ہوئی بڑی بڑی اعلی ڈگریوں والی تعلیم سے نہیں بلکہ! ان کی ذاتی زندگی کے تجربات اور اُن کے اپنے بزرگوں یا اُن کے دور کے معمولی سے سکول سے پاس کی ہوئی چار جماعتوں والی زبانی تعلیم اورعلم کا ہی کمال ہوتا ہے۔

‏اور اگر دیکھا جائے تو ہمیں اُن میں سے زیادہ تر کی دنیاوی تعلیم کے حوالے سے قابلیت میٹرک، مڈل یا پرائمری تک کی ہو گی (البتہ! ان میں سے چند اس سے زیادہ پڑھے لکھے بھی ہوں گے، مگر زیادہ تر اُن بزرگوں میں آپ کو کم پڑھے لکھے ہی دیکھنے کو ملیں گے)۔

‏اب اس سب کے برعکس اگر ہم آج کے دور کے نوجوانوں کو دیکھیں اور اُن کی دینی، دنیاوی اور معاشرتی زندگی میں ان کے کرداروں کا بغور جائزہ لیا جائے۔ تب آپ کو پتا چلے گا کہ آج کل کے نوجوان جو کہ زیادہ تر بڑے مہنگے مہنگے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑی بڑی اعلی ڈگریوں کے مالک تو بن رہے ہوتے ہیں۔

‏مگر! میرے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج کے نوجوان اِن مہنگے مہنگے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اچھی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ زندگی کے ہر شعبے میں ایک بہترین اور کامیاب انسان بنیں، لیکن آج کا نوجوان یہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد زیادہ تر تو صرف اور صرف پیسہ کمانے والی بہترین مشینیں ہی بن کے رہ گئے ہیں۔

‏اور اُنہیں ملی ہوئی اِس مادیت پسندی کی تعلیم و تربیت کے علاوہ زیادہ تر نوجوان نہ تو اپنے مذہبی، معاشرتی، ثقافتی اور خاندانی اصولوں و اقدار کے بارے میں زیادہ جانتے ہی ہیں، نہ ہی اس میں انہیں کوئی زیادہ دلچسپی اور نہ ہی اس میں حصہ لینے کی اِن کی کوئی باقاعدہ کوشش نظر آتی ہے۔

‏اور اب اگر آج کے اِس نوجوان کو اُن پرانے دور کے چار یا چند زیادہ جماعتیں پاس کیے ہوئے ان بندوں کے ساتھ کمپئر کیا جائے۔ تو میں اُس پرانے دور کے چار یا چند زیادہ جماعتیں پاس بندوں کو آج کے نوجوانوں سے بہتر کہوں گا جو اپنی سب مذہبی، معاشرتی، خاندانی اور ثقافتی اقدار کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے بھی ایک بہترین اور کامیاب انسان ہیں/تھے۔

‏اور اب آخر میں یہ کہوں گا کہ اے میرے پیارے پاکستان کے پیارے نوجوانو! میرے نزدیک کتنی بھی اعلي ڈگری ہو وہ صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔ اِس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ کاغذ کا ٹکڑا کبھی بھی کہیں بھی گم ہو سکتا ہے لیکن آپ کا حاصل کیا ہوا ذاتی علم اور تجربہ ہی اصل خزانہ ہے جو آپ کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے۔

‏اور بلاشبہ ہم نے پرانے دور کے مقابلے میں بہت ترقی کر لی ہے لیکن! ہمیں اپنے مذہبی، معاشرتی، خاندانی رسم و رواج اور اپنی ثقافت کو بھی ہر صورت ہر جگہ اپنی پہچان بنا کر اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے۔

‏تاکہ ہم اس ماڈرن ورلڈ میں لازوال ترقی کی منازل طے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بہترین مذہبی و ثقافتی اقدار کو بھی زندہ رکھ سکیں۔ کیونکہ جو قومیں اپنی اصلیت کھو بیٹھتی ہیں وہ کبھی اُس اصل کامیابی کو حاصل نہیں کر سکتیں جو ہم نے حاصل کرنی ہے۔
‏اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
‏واخر دعونا أن الحمدلله رب العالمين
‏دُعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ شکریہ

‏ : ⁦‪@MainBhiHoonPAK

Comments are closed.