قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس ، این ڈی ایم اے پر کیوں ہوئی برہمی
باغی ٹی وی : اسلام آباد(محمداویس )قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ نے این ڈی ایم اے کے چیرمین کی کمیٹی میں عدم خاضرپر برہمی کااظہارکرتے ہوئے ان کواگلے اجلاس میں طلب کرلیا،کراچی کے حالیہ سیلاب میں وزیراعظم نے فنڈززیادہ جاری کئے مگراین ڈی ایم اے کی طرف سے عوام کی کوئی مددنہیں کی گئی ۔جن کوامداددی گئی ہے اس کے ثبوت کمیٹی کودیئے جائیں ۔کمیٹی نے حکومتی پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی )بل کوارکان کی ترمیم کے ساتھ پاس کرکے منظوری کے لیے کابینہ کے پاس بھیج دیا۔
بونیر میں 1994میںپیپلزورکس پروگرام کے تحت بنائی گئی ڈسپنسریوں کی غیرفعال ہونے پرسیکرٹری منصوبہ بندی اورصوبہ کے پی کے کے سیکرٹری صحت کوکمیٹی میں طلب کرلیا۔حکام نے بتایاکہ ایم ڈی ایم اے نے سندھ میں حالیہ سیلاب کے دوران 31ہزار5سو ٹینٹ،15سو بالٹیاں ،اور 12ہزار مچھردانیاں تقسیم کی گئیں۔بدھ کوقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کا اجلاس کشورزہراہ کی سربراہی میں قومی اسمبلی میں ہوا اجلاس میں ممبر علی نواز اعوان ،محمداسلم خان ،عظمیٰ ریاض،سیمہ معین الدین جمالی،غلام علی تالپور،سید محمودشاہ،محسن علی داوڑنے شرکت کی جبکہ وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمدخان ،سیکرٹری کابینہ ڈویژن ،پیپرا،این ڈی ایم اے اور صوبہ کے پی کے کے وزارت صحت کے حکام نے شرکت کی ۔ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی )بل پر بحث کی گئی۔ سیکرٹری کابینہ سیکرٹریٹ نے کہاکہ جو ترامیم ارکان کمیٹی کی طرف سے مانگی جارہی ہے اس کے لیے الگ سے پرائیویٹ ممبر بل لے کرآئیں اس کی کابینہ سے منظوری لینی ہوگی۔یہ کمیٹی کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امورعلی محمد خان نے کہاکہ اس بل کے حوالے سے جو کام آپ کررہے ہیں اس کا ووٹ لینے سے تعلق نہیں ہے ہم اس کو خوش آمدید کہتے ہیں۔علی نواز اعوان نے کہاکہ ہم نے اپنے خرچے کم کرنے ہیں۔خریداری کو شفاف بننا چاہتے ہیں ۔کمیٹی نے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی )بل ارکان کی ترمیم کے ساتھ پاس کرکے منظوری کے لیے دوبارہ کابینہ کے پاس بھیج دیا۔کمیٹی میں ایم این اے شیر اکبر کے ایوان میں پوچھے گئے سوال نمبر105جو کہ بونیرمیں ڈسپنسریوں کے حوالے سے تھا پر حکام نے جواب دیا۔حکام نے بتایاکہ کے کل 12ڈسپنسریوں کی نشادہی ہوئی ہے جس میں سے 11کی عمارتیں بنائی گئی ہیں مگر ان عمارت پر مالکان نے قبضہ کرلیاہے اور یہ کبھی فعال نہیں ہوسکیں ہیں اور نہ ہی ان دسپنسریوں کوکے پی کے وزارت صحت کے حوالے کیاگیا۔
اکبر شیر نے کہاکہ 105سوال کا جواب ایوان میں غلط دیا گیاتھا جس کو میں چیلیج بھی کیاتھا ہے یہ ڈسپنسریاں زیادہ بنائی گئی تھیں مگر ان کے پاس صرف 12کاریکارڈ ہے جوکہ پیپلزورکس پروگرام کے تحت بنائی گئی تھیں 1994میں یہ ڈسپنسریاں بنائی گئی تھی مگر ابھی تک غیر فعال ہیں 11ڈسپنسریاں ہیں جن کی عمارت ہے ارکان کمیٹی نے سفارش کی کہ یہ ڈسپنسریاں صوبائی حکومت کو دے دی جائیں تاکہ فعال ہوسکیں ۔وزیرمملکت برائے پارلیمانی امورعلی محمد خان نے کہاکہ منصوبہ بندی کمیشن کے سیکرٹری کو بلائیں وہ جواب نہیں دے رہے ہیں ہم نے 4خط لکھے مگر جواب نہیں دیا ہے وہ اس حوالے سے کچھ کریں گے تو اس کے بعد ہی یہ ڈسپنسریاں صوبوں کو دی جاسکتی ہے۔سیکرٹری پلاننگ کو کمیٹی میں بلائیں اگر بونیر میں 13دسپنسریاں بن جائے تو عوام کو فائدہ ہوگا۔علی نواز نے کہاکہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ ڈسپنسریاں صوبے کو یہ لینا چاہیے تھی۔کمیٹی کوبتایا جائے کہ کتنے عرصے میں یہ فعال ہوجائے گیں۔
جس پر کمیٹی نے اگلے اجلاس میں سیکرٹری پلاننگ کمیشن اور کے پی کے کے وزارت ہیلتھ کے حکام کو بلالیا ۔این ڈی ایم اے کے حکام نے کمیٹی کوملک میں حالیہ سیلاب اور کے دوران ہونے والے امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے بریفنگ دی ۔برگیڈئیر وسیم الدین نے کمیٹی کوبتایاکہ اس بار معمول سے 41فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے سیلاب آیا ہے۔ حالیہ سیلاب کے دوران سندھ میں این ڈی ایم اے نے 31ہزار5سو ٹینٹ،15سو بالٹیاں ،اور 12ہزار مچھردانیاں ودیگر استعمال کی چیزیں تقسیم کی گئیں ہیں ۔کراچی کے تین نالے سیلاب سے پہلے صاف کئے گئے تھے ۔کراچی سے ممبراسمبلی و رکن کمیٹی اسلم خان نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ حالیہ سیلاب کے دوران کراچی میں عوام کی کوئی امدادنہیں کی گئی ہے چیئرپرسن کشورزہراہ نے کہاکہ این ڈی ایم اے کوسیلاب کے دوران فنڈز بہت زیادہ جاری ہوئے مگر دیا کچھ نہیں ۔جو سامان بتایاجارہاہے کہ لوگوں کودیاگیاہے یہ بہت ہی کم ہے پورے کراچی کے لیے صرف 15سو بالٹیاں نہ ہونے کے برابر ہیں این ڈی ایم اے نے جو سامان تقسیم کیاہئے اس کی بھی تفصیل بتائی جائے کہ کس کودیاگیاہے ۔اسلم خان نے کہا جن کو سامان دیا ہے اس کا ثبوت کمیٹی کودیا جائے۔
حالیہ سیلاب میں کراچی کا سانحہ جس طرح شروع ہواہے اور اس کا حل کیا کیا گیا ہے۔اگر بڑے اور چھوٹے نالے صاف کردیے جائیں تو سیلاب نہ آتا۔ناظم آباد میں بھی پانی کھڑا تھا نالے صاف ہوئے تو کس طرح پانی کھڑا ہوا؟این ڈی ایم اے کے برگیڈئیر وسیم الدین نے کہاکہ کراچی کے حالیہ سیلاب کو کیٹیگری بی میں رکھاگیاتھا اگر نیشنل ایمرجنسی لگ جاتی تو اس کو کیٹیگری سی میں رکھتے اور این ڈی ایم اے براہ راست اس میں کام کرتی اب یہ سب سندھ حکومت دیکھ رہی تھی ۔
چیرپرسن نے برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ہر بار کوئی نہ کوئی آتے ہیں مگرہمارے سوالوں کے جواب نہیں دیئے جاتے ہیں اگلے اجلاس میں چیرمین این ڈی ایم اے لازمی آئیں اور کمیٹی کے سوالوں کے جواب دیں ۔ہماری کمیٹی کی میٹنگ میں وزیر ہوتا ہے مگر جواب نہیں دیا جاتا ہے۔علی محمد خان نے کہاکہ ایم کیو ایم کے لوگ میڈل کلاس سے ہیں۔ایم کیو ایم کے رکن ساجد بھائی نے کہاکہ جھنڈاپاکستان کا ہونا چاہیے اس کے بعد میں نے صرف پاکستان کا جھنڈا لگایا۔
اس سے پہلے میں جب قومی اسمبلی آتاتھا تو پارٹی کاجھنڈالگاتاتھا۔جس کے اعتراضات ہیں پہلے ان لوگوں کے مسائل حل ہونے چاہیے اگر اس کے بعد وہ سوال کریں تو ان سے جواب طلبی ہونی چاہیے ۔محسن داوڑ نے کہاکہ بلوچستان سے لوگ اسلام آباد آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق ہمارے مسائل حل کئے جائیں مسائل کو الجھایا جارہاہے۔ٹی وی پر حکومتی وزیرکی طرف کہاگیاکہ بلوچستان میں تو شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کوماراجاتاہے ان کاشناختی کارڈ دیکھ کرکسی نے ان کونہیں مارا ہے اس طر ح کے بیانات دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لوگوں کومرکزسے مایوس نہ کریں ۔