مزید دیکھیں

مقبول

اوکاڑہ: ساہیوال واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کمپنی کا افتتاح

اوکاڑہ ،باغی ٹی وی(نامہ نگار ملک ظفر) وزیراعلیٰ پنجاب...

قدرتی آفات، خطرہ برقرار ہے…..! تحریر : اقصٰی صدیق

قدرتی آفات، خطرہ برقرار ہے…..!

قدرتی آفات یعنی زلزلے، سیلاب، سمندری طوفان، خشک سالی، قحط اور مختلف وبائی امراض ہزاروں لاکھوں برس سے اس دنیا میں موجود ہیں۔
البتہ بہت سی وبائی امراض جیسے طاعون اور چیچک وغیرہ پر انسان نے اب قابو پا لیا ہے، انہی وبائی امراض سے تھوڑے ہی عرصے میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جاتے تھے۔
تاہم بڑی قدرتی آفات یعنی زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں اور کسی حد تک وبائی امراض سے ابھی تک انسان نجات نہیں پا سکا۔

دنیا بھر میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں انیسویں صدی سے تیز تر ہوتی جا رہی ہیں، جن کے واضح اثرات 2000ء سے دنیا کے اب مختلف ممالک میں واضح ہو چکے ہیں،
جس کی وجہ سے دو دہائیوں میں مالدیپ جیسا ملک سمندر برُد ہو جائے گا جب کہ بنگلہ دیش کا تقریبا بیس فیصد 20٪ رقبہ زیر آب آنے کی پیش گوئیاں ہیں۔ پاکستان میں بھی قدرتی آفات کا سلسلہ 1990ء کی دہائی سے شروع ہوا 1997ء تا 2003ء تک بلوچستان اور سندھ کے بارانی علاقوں میں شدید نوعیت کی خشک سالی رہی۔
پھر سمندری طوفان آئے، 2005 میں آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں بدترین زلزلہ جبکہ 2008 میں زیارت میں زلزلہ آیا۔
اور 2010 میں تاریخ کا خوفناک اور تباہ کن سیلاب آیا ،
2011 میں سندھ میں سیلاب اور پنجاب میں ڈینگی وائرس نمودار ہوا۔
ان آفات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں دوبارہ ایسی قدرتی آفات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
لہذا وفاقی اور صوبائی حکومت کو اس حوالے سے جامع منصوبہ بندی کر لینی چاہیے۔ 2005 ء سے اب تک آنے والی امداد اور تعاون سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ عالمی اداروں کو ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے سے قدرتی آفات پر امداد میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔
زلزلوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو خطے کے ممالک چین، ایران، افغانستان، ترکی، ازبکستان، تاجکستان ترکمانستان کرغزستان، قازقستان اور آزربائیجان و دیگر وہ علاقے ہیں، جہاں زلزلے ہمیشہ سے تباہی مچاتے رہے ہیں۔
سیلاب اور طوفانوں کے اعتبار سے بنگلہ دیش، بھارت چین، مالدیپ اور نیپال ایسے ممالک ہیں جہاں سیلاب بڑی قدرتی آفت کے طور پر آتے ہیں۔
نومبر 2011 میں نیپال میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں یہ بھی طے پایا ہے، کہ قدرتی آفات کے لیے لئے سارک ممالک ملک مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں۔ پاکستان سارک کے علاوہ ایک ایکو رکن بھی ہے۔
جس میں پاکستان، ایران اور ترکی کے علاوہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ ان ملکوں کے تعاون سے قدرتی آفات کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی اختیار کرے۔
یوں اگر مستقبل میں پاکستان میں زلزلے اور سیلاب کی صورت میں کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو علاقائی ملکوں سے فوری طور پر امداد حاصل ہوگی اور مسائل پر جلد قابو پالیا جائے گا۔

قومی سطح پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا ادارہ قدر مستحکم ہوا ہے۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے، کہ اس ادارے کو صوبائی سطح پر بھی مستحکم اور متحرک کیا جائے۔
کمیونٹیوں کی سطح پر قدرتی آفات اور ان سے بچاؤ کے حوالے سے عوام میں شعور بیدار کیا جائے، اور امداد کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت کے جذبے کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔
اس کے علاوہ اسکاؤٹ، گرلز گائیڈ اور شہری دفاع کے اداروں کو بھی مستحکم اور فعال کیا جائے۔

2001ء سے لے کر اب تک دنیا بھر میں قدرتی آفات سے شدید طور پر متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان، انڈونیشیا اور جاپان سرفہرست ہیں۔
پاکستان میں 8 اکتوبر 2005ء کے بدترین زلزلے اور 2010 کے تباہ کن سیلاب نے گزشتہ دہائیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔

اس کے علاوہ وہ 2011 میں ڈینگی بخار کی صورت میں وبائی مرض پنجاب خصوصاً لاہور میں آیا اور اس میں ہزاروں افراد مبتلا ہوئے نومبر کے آخر تک ڈینگی وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریبا سات سو 700 تک پہنچ گئی لیکن ڈینگی کی دہشت کو ختم نہ کیا جا سکا۔
لاہور خصوصاً پنجاب کو ڈینگی کی وجہ سے اربوں روپے کا معاشی نقصان ہوا۔
اگرچہ قدرتی آفات 2011ء میں جاپان، امریکا، چین تھائی لینڈ، ترکی اور برازیل میں بھی آئیں لیکن ہمارے یہاں آنے والے قدرتی آفات کے نشانات اس دھرتی کی زمین اور لوگوں کے سینوں میں ایک عرصے تک ہرے رہیں گے۔

یہ تلخ حقیقت ہمارے سامنے ہے ہے کہ پوری دنیا میں ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کے بہت واضح اثرات شدید نوعیت کی قدرتی آفات کی صورت میں صدی کی پہلی دہائی سے شروع ہوچکے ہیں۔
ہمارے ساحل پر دو کروڑ آبادی کا شہر کراچی، جو ملکی صنعت اور کاروبار کا 80 فیصد بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، تو دوسری جانب ڈیپ سی پورٹ اور ابھرتا ہوا شہر گوادر ہے،
جس کے ساحل پر صدیوں سے گارے کا آتش فشاں موجود ہے جسے مقامی آبادی آج بھی سمندر کی آنکھ کہتی ہے۔ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مستقبل قریب کیلئے موثر منصوبہ بندی کرنی چاہیے، تاکہ مستقبل میں میں آنے والی آفات سے باآسانی نمٹا جا سکے۔

تحریر : اقصٰی صدیق
@_aqsasiddique