قرآن سے بے سہارہ عورت کی حفاظت : تحریر احسان اللہ خان

0
58

یہ ایک مہاجر عورت کی داستان ہے۔ جو جالندھر کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ داستان غم خود اس کی زبانی ملاحظہ کیجئے۔
میں تو اس بات پر یقین رکھتی ہوں جو خدا نے اپنی کتاب میں فرمائی ہے کہ خدا جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے وہ بہت ہی کریم و رحیم ذات ہے۔ پھر وہ ایک دم اپنے بچپن کی طرف لوٹی اور کہنے لگی کہ بچپن میں ہمیں قرآن کریم کی تعلیم بہت سختی سے دی جاتی تھی۔ اگر کوئی کسی بہانے کی وجہ سے قرآن پڑھنے نہ جاتا تو پہلے بزرگ اس کو سمجھاتے پھر اسے نئے طریقوں سے سزا دی جاتی حتیٰ کہ وہ بڑی خوشی سے قرآن پاک پڑھنے چلا جاتا۔
اسی طرح میں نے بھی ایک دفعہ سر درد کا بہانا بنایا۔ سزا تو نہیں ملی تھی لیکن سمجھو مجھے ایک دم سمجھ آگئی کہ قرآن پاک پڑھے بغیر گزارا نہیں۔ چنانچہ میں نے قرآن پاک حفظ کرنا شروع کیا۔ اور اس وقت نئے کپڑے نہیں پہنے لیکن دھلے ہوئے پہنے تھے جب تک قرآن پاک حفظ کرلیا۔
زندگی کے دن گزر رہے تھے کہ اچانک ملک تقسیم ہوگیا اور ہم پاکستان آرہے تھے کہ راستے میں غنڈوں اور ڈاکوؤں نے ہمارے قافلے پر حملہ کردیا پھر کیا ہوا اس کے بعد اس کی آواز مدہم پڑھ گئی اور دو ننھے ننھے اشک انسو سے گر پڑے۔ میرے گھر کے تمام افراد شہید ہوگئے اور میں بے ہوش ہوگئی۔ ہوش آنے پر میں نے اپنے آپ کو ایک نرم اور پر سکون بستر پر پڑا پایا۔ یہ ایک خوبصورت کمرہ تھا جس میں کچھ عریاں فوٹو تھیں اور بعض تصویروں پر گرنتھ پڑھتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ سکھوں کا گھر ہے اچانک زور سے دروازہ کھلا۔ اور ایک نواجوان سکھ اور ایک بوڑھی عورت کمرے میں داخل ہوئے۔ اور آتے ہی اس نوجوان نے اس عورت سے کہا ”ماں یہ ہے تیری بہو کیا تجھے پسند ہے؟ “ وہ۔عورت ہنس کر بولی ہاں پسند ہے۔ پھر وہ باہر چلی گئی اس کے بعد اس نوجوان نے الماری سے شراب کی بوتلیں نکالیں پھر وہ بے تحاشہ پینے لگا۔ اس کے بعد وہ بے ہوش ہوگیا۔ اس کے بعد میری آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی۔ اور میں وہاں سے بھاگنے کی تیاری کرنے لگی۔ رات کے تقریباً دو بجے تھے میں چارپائی سے اتر کوئی چیز تلاش کرنے لگی۔ اچانک مجھے ایک چمکتی ہوئی چیز دکھائی دی یہ ایک کرپان تھی جو اس بے ہوش سکھ کی چارپائی کی نیچے پڑی ہوئی تھی۔ میں نے جلدی سے کرپان اٹھائی اور اس کا سر تن سے جدکردیا۔ معمولی سی چیخ سنائی دی اور بے تحاشہ باہر کو بھاگی۔ راسے کی مشکلات سے بچنے کے بعد دن تقریباً دو بجے واہگہ بارڈر کی سرحد پر ہلالی پرچم کو دیکھ کر میں بے ہوش ہوگئی۔ اس کے بعد کیا ہوا میں اپنے مسلمان بھائیوں کے درمیان رہنے لگی۔المختصر اسی محافظ (قرآن) نے میری زندگی بچائی۔ جو اسی وقت یہی قرآن میرے بغل میں تھا۔

IhsanMarwat_786

Leave a reply