قربانی کے احکام و مسائل.تحریر: قاری محمد صدیق الازھری

0
76

الحمد لله رب العالمين والصلاه والسلام على اشرف المرسلين وخاتم النبيين ورحمه الله للعالمين سيدنا محمد وعلى اله وصحبه اجمعين . اما بعد : فان الله تبارك وتعالى امر عباده بعبادته وحده لا شريك له قال الله في كتابه : اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱)فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(۲)اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠(۳)

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی سورة الفجر آیت نمبر ۲ میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ) جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حج کا اہم رکن: وقوفِ عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔ غرض رمضان کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ لہٰذا ان میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں، اللہ کا ذکر کریں، روزہ رکھیں، قربانی کریں۔ اس ماہ مقدس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔ (صحیح بخاری ) اس ماہ مقدس میں مسلمان حج بیت الله ادا کرنے کے ساتھ ساتھ قربانی جیسے عظیم فریضے سے بھی فیضیاب ہوتے ہیں جس کے متعلق الله تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَلِکِلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسِکًا لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَی مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَةِ الْاَنْعَامِ (سورة الحج ۳۴) ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی؛ تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ ” قربانى ابراہیم عليہ السلام اور محمد ﷺ دونوں كى سنت ہے اور اللہ تعالىٰ نے قرآن ميں ان دونوں انبيا كى سنت اپنانے اور اتباع كرنے كى تلقين فرمائى ہے-(آلِ عمران:31) "۔ قربانی کا ثواب بہت بڑا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اﷲ تعالیٰ کو پسند نہیں، ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)

آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ، ہر ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔‘‘

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ قربانی تمہارے باپ ( ابراہیمؑ) کی سنت ہے۔ صحابیؓ نے پوچھا: ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ ‘‘ اُون کے متعلق فرمایا: ’’ اس کے ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔‘‘

شریعت كے وہ چند مسائل جو ہمارى توجہ كسى نہ كسى تاريخى واقعہ كى طرف مبذول كرواتے ہيں ان ميں سے ايک قربانى بھى ہے- ايسے مسائل سے مقصود محض انہيں مقررہ وقت پر كر لينا ہى كافى نہيں ہے بلكہ ان تاريخى واقعات پر گہرى نگاہ ڈالتے ہوئے اس جذبہ عبادت اور قربانى كى ناقابل فراموش حقيقت كو سمجھ كر اپنانے كى كوشش كرنا بھى ضرورى ہے جس كے باعث يہ مسائل ہمارى اسلامى روايات ميں اہم حيثيت اختيار كر گئے ہیں۔ جيسا كہ حاجيوں كے ليے صفا مروہ كى سعى كرنا محض ايک دوڑ نہيں ہے بلكہ يہ اس تاريخى واقعہ كى غماز ہے جس ميں ايک طرف ننھا سا بچہ شدتِ پياس كے باعث زمين پر ايڑياں مارتا نظر آتا ہے اور دوسرى طرف حضرت ہاجِرَ عليها السلام پانى كى تلاش ميں صفا مروہ كى پہاڑيوں كے چكر لگاتى نظر آتى ہيں كہ جنہيں ابراہیم عليہ السلام اللہ تعالىٰ كے حكم پر اپنى تمام تر محبتيں قربان كر كے مكہ كى بے آب وگياہ زمين ميں تنہا چھوڑ گئے تھے۔ قربانى كا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عيد ِقربان كے دن جانور ذبح كرنا، كچھ گوشت تقسيم كر دينا،كچھ كھا لينا اور پھر خود كو شريعت كے ہر حكم سے آزاد تصور كرنا اور قربانى كے مقصد يا غرض وغايت پر سنجيدگى سے غوروفكر نہ كرنا، كسى طور كافى نہيں ہے بلكہ يہ بھى ضرورى ہے كہ جانور قربان كرنے كے ساتھ ساتھ ابراہیم علیہ السلام كى مثالى اطاعت وفرمانبردارى اور اثر آفريں عقیدت واِردات كو بهى پيش نظر ركها جائے كہ جس كى وجہ سے انہوں نے اللہ تعالى كے حكم پر اپنا كم سن خوبصورت بيٹا بھى قربان كرنے سے دريغ نہ كيا-

اگرچہ چھرى ذبح نہ كرسكى اور پھر حكم الٰہى كے مطابق مينڈها ذبح كر ديا گيا ليكن وہ اللہ تعالى سے كيسى محبت ہوگى اور اللہ تعالى كے ليے ہر چيز قربان كر دينے كا كيسا جذبہ ہوگا كہ جس كى بدولت وہ اس مشكل ترين عمل سے بھى پیچھے نہ ہٹے، پهر اللہ تعالى نے بهى اس محبت واطاعت كا صلہ يوں ديا كہ اس عمل كو تمام مسلمانوں كے ليے مسنون قرار دے كر قيامت تک كے ليے ابراہیم علیہ السلام كى سنت كو جارى وسارى كر ديا۔ ہم سے بھى اسلام صرف جانوروں كى قربانى نہيں چاہتا بلكہ اس جذبہ اطاعت اور خشيت ِالٰہى كو بھى اُجاگر كرنا چاہتا ہے جس كے ذريعے ہم اپنى ہر چيز بوقت ِضرورت اللہ تعالى كى خاطر قربان كردينے كے ليے تيار ہوجائيں۔ اور يقينا آج اسلام كو جانوروں كى قربانيوں سے كہيں زيادہ ہمارى محبوب ترين اشيا يعنى مال، اولاد اور جان كى قربانيوں كى ضرورت ہے۔ لہٰذا ہميں چاہيے كہ اس عمل كو محض ايک تہوار ورسم سمجهتے ہوئے تفاخر اور رياء ونمود كا ذريعہ ہى نہ بنا ڈاليں كہ جس كے باعث ہميں دنيا ميں تو اسلامى شعائر و روايات اپنانے كا اعزاز مل جائے ليكن ہمارى عقبىٰ تباہ وبرباد ہو كر رہ جائے بلكہ ہميں چاہيے كہ اس عمل كے پيچهے چھپى اُس عظيم قربانى كو مدنظر ركهتے ہوئے اپنے ايمانوں كو اس قابل بنائيں جو ہميں دنياوى لہو ولعب اور مصنوعى عيش ونشاط سے نكال كر اپنى زندگى كا ہر لمحہ اور ہر گوشہ رضاے الٰہى كى خاطر قربان كر دينے كے ليے تيار كر دے۔
سورۂ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا کہ جس طرح نماز اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے نہیں ہوسکتی اسی طرح قربانی بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے لئے نہیں ہوسکتی ۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:’’ آپ کہہ دیجئے! کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘(سورۂ انعام) ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے ارشاد فرمایا : ’’بنی آدم کا کوئی عمل بقر عید کے دن اللہ تعالیٰ کو (قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ، اور بے شک (قربانی کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو جاتا ہے ۔ تو تم اپنا دل اس کے ذریعہ سے خوش کیا کرو!۔ (ترمذی و ابن ماجہ)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : ’’یا رسول اللہؐ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ‘’ اور فرمایا: ’’استطاعت کے باوجود جو شخص قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کا رُخ بھی نہ کرے ! ان تین دنوں میں قربانی سے بڑھ کر کوئی دوسرا نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نہیں ہے‘‘۔(مسند احمد ، ابن ماجہ، الترغیب والترہیب)ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے دل کی خوشی اور ثواب طلب کرنے کے لئے قربانی کی تو وہ قربانی اس شخص کے واسطے دوزخ کی آگ سے آڑ ہو جائے گی‘‘۔(الترغیب والترہیب)
قربانی کے متعلق چند احکامات جو احادیث مبارکہ میں قابل ذکر ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱-جس شخص کے پاس رہائشی مکان، کھانے پینے کا سامان، استعمال کے کپڑوں، اور روز مرہ استعمال کی دوسری چیزوں کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا نقد روپیہ ، مالِ تجارت یا دیگر سامان ہو ، اس پر قربانی کرنا واجب ہے۔(فتاویٰ شامی: ۶/۳۱)
۳-جس شخص پر صدقۂ فطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے۔ (فتاوی عالمگیری: ۵/۲۹۲)
۴-اگر کسی شخص نے مرنے سے پہلے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو اور اتنا مال چھوڑا ہو کہ اس کے تہائی مال سے قربانی کی جاسکے تو اس کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری: ۵/ ۲۰۶)
جس شخص پر صدقۂ فطر واجب ہے اُس پر بقرۂ عید کے دنوں میں قربانی بھی واجب ہے۔(در مختار:۵؍۳۰۴) فقیر اورمسافر پر قربانی واجب نہیں۔(شرح البدایہ: ۴؍۴۴۳)
قربانی کے لئے بہیمۃ الانعام یعنی اونٹ،گائے، بھیڑ، وبکری کا ہونا شرط ہے۔ قربانی کے جانوروں کے متعلق آپ مزید (سورۃالانعام:آیات:۱۴۲،۱۴۳،۱۴۴) کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح قربانی کے جانوروں کا مسنہ(یعنی دوندا) ہونا شرط ہے۔ مسنہ جانور اس کو کہتے ہیں جس کے اگلے دو (دودھ کے) دانت گرگئے ہوں اور اگر دوندے جانور دستیاب ہوں تو قربانی کیلئے دو دانتیں جانور کا انتخاب لازم ہے۔ ہاں مجبوری کی حالت میں (یعنی مسنہ جانور مارکیٹ میں نہ مل سکے یا اس کی استطاعت نہیں ہے تو) ایک سالہ دنبہ یا مینڈھا ذبح کیا جاسکتا ہے۔لیکن یاد رہے یہ صرف مجبوری کی حالت میں ہے اور اس میں بھی صرف بھیڑ کی جنس کا جزعہ قربانی میں کفایت کریگا، بکری وغیرہ کی جنس کا جزعہ کفایت نہیں کریگا۔(صحیح مسلم)

قربانی ایک اہم عبادت اور اسلام کا شعار ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔اسی لیے صحت مند اور بے عیب جانور کی قربانی دینی چاہیے۔اور ان عیوب کو جاننا ہمارے لیے ضروری ہے جن سے قربانی نہیں ہوتی۔
جس طرح تقویٰ اور خالص رضائے الٰہی قربانی کی قبولیت کی اہم شرط ہے، اسی طرح جانور کا ان عیوب سے پاک ہونا بھی ضروری ہے جسے نبی کریم ﷺ نے قربانی کی قبولیت میں مانع قرار دیا ہے۔

1) ان عیوب کی تفصیل جن کی وجہ سے قربانی درست نہیں ہوتی درج ذیل ہے:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أربع لا تجوز في الأضاحي:العوراء بين عورها، والمريضة بين مرضها، والعرجاء بين ظلعها، والكسير التي لا تنقى.»
‘‘چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے:
1.ایسا کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو ۔
2.ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ۔
3.ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔
4.انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔’’
5. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا جن کے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے ہوں۔
6. جس کا کان نصف یا نصف سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔
7. اندھا اور ٹانگ کٹا جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔

ان تمام مسائل کا خاص خیال رکھیں اور اپنی عید کی خوشیوں میں غرباء و مساکین کو بھی شامل کریں۔ بارگاہ ایزدی میں دعا ہے کہ خدا تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قربانی کی عبادت صحیح اصولوں کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

Leave a reply