راج کا راز .تحریر:محمد عتیق گورائیہ

پیشہ جو کہ فارسی زبان سے اردو زبان میں آیا جس کو انگریزی میں Profession، عربی میں کسب، فن اور شغل پراکرت میں کام اور ازبک میں کسب کہتے ہیں۔اسی پیشہ سے پیشہ وارانہ، پیشہ وری جیسے مرکب الفاظ معرض وجود میں آے۔ اسی سے پیشہ اٹھانا بھی مستعمل ہے جس سے مراد پیشہ اختیار کرنا ہے۔ایک لفظ پیشہ آموز بھی ہے جس سے مراد کوئی کام یا فن وغیرہ سکھانے والا ہے۔اگر بات کی جاے انگریزی کے لفظ Professionکی تو یہ لاطینی زبان سے لیا گیا ہے جب کہ فرانسیسی زبان میں اسے حلف نامے سے جوڑا گیا ہے۔اسی لفظ پیشہ سے جڑا ایک بنیادی لفظ مزدور نہ ہوتا تو اس جہان رنگ و بو میں اونچے اونچے محلات، دیدہ زیب عمارتیں اور نظر سے اوجھل ہوتی بلند وبالا چھتیں بھی نہ ہوتیں۔حیدر علی جعفری کا شعر ہے
؎خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں
نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا
فارسی کے لفظ ”مُزد“ کے ساتھ ”ور“بطور لاحقہ صفت لگانے سے مُزدور بنا۔فارسی کے مزدور سے وہی مراد ہے جو انگریزی کے لفظ Labourerاور سنسکرت کے سیوک سے مراد ہے۔عام زبان میں لفظ مزدور مجور کا تلفظ اختیار کرلیتا ہے اب یہ بھی محض اتفاق ہی ہوگا کہ لفظ مجور عربی کے لفظ ماجور کے قریب ترین ہے جس کے معنی اجر دینے کے ہیں۔ظریف لکھنوی شامت الیکشن میں لکھتے ہیں
؎حسب خواہش گر بدل مجھ کو عطاکردیں جناب
کیا عجب پیش خدا ماجوربھی ہوں اور مثاب
اب لفظ مستری کی طرف ذرا غور فرمائیے اور پھر ذرا مسطر کو دیکھیں جس سے مراد ایسا آلہ جس سے سطریں بنائی جائیں جسے ہمارے ہاں فُٹا بھی کہتے ہیں۔اب اگر لفظ مستری اور مسطری کو دیکھیں تو کیاخیال آتاہے؟ یہ لفظ اصل میں مسطری ہوگاجو بعدازاں مستری ہوگیا۔اسی لفظ مستری کے لیے راج مستری کا لفظ بھی استعمال میں رہا ہے۔ راج عربی زبان کے لفظ راز کی تبدیل شدہ شکل ہے جس کا معنی ماہر کے ہیں اور راج کے بھی یہی معنی ہیں۔اسی طرح فارسی کے لفظ خدمت کے ساتھ لفظ گار کو صفت فاعلی استعمال کرکے خدمت گار کا لفظ بنایا گیا جس کا مطلب خدمت کرنے والا ہوتا ہے۔اسی لفظ خدمت کے ساتھ رسیدہ لگاکر خدمت رسیدہ کردیا جاے تو اس سے مراد ایسا ملازم ہوگا جو نوکری کے قابل نہ ہو۔اب اسی لفظ ملازم کو دیکھیے جو کہ عربی کے لفظ لزوم سے نکلا ہے۔ ساتھ رہنے والے، چپکے رہنے والے اور تنخواہ یا اجرت پر کام کرنے والے کو مُلازِم کہتے ہیں۔لفظ ملازم کے مرکبات اگر دیکھیں تو ملازم پیشہ، ملازم خاص، ملازم درگاہ سرکار اور ملازم متعہد وغیرہ ہیں۔ قارئین کے لیے میری طرح ملازم متعہد لفظ نیا ہوگا تو اس کا معنی بتاتا چلوں کہ اس سے مرادوہ ملازم ہوتا ہے جس کو خاص شرائط پر ملازمت ملی ہو۔
؎آاے اثرملازم سرکار گریہ ہو
یاں جزگہر خزانے میں تنخواہ ہی نہیں

ریلوے اسٹیشن پر لال کپڑے پہنے بوجھ اٹھاتے لوگ تو آپ سب نے دیکھے ہی ہوں گے۔ پاکستانی ریل کی خستہ حالی کے سبب اس طبقے کا حال بھی کافی پتلا ہوچکا ہے۔لفظ قلی جہاں سے آیا ہے وہ علاقہ تو اس وقت پاکستانیوں کی نظروں میں سمایا ہوا ہے۔ لفظ قلی ترکی زبان سے اردو میں آیا۔ اردو میں تو اس سے مراد وہ مزدور ہے جو باربرداری کا کام کرتا ہے اور ترکی میں اس سے مرادغلام /بندہ ہے جیسے ہمارے ہاں عبداللہ، عبدالخالق وغیرہ۔اب جب انگریز ہندوستان میں آیا تو گجرات کی ایک ذات یا برادری غربت کے ہاتھوں بار برداری کا کام کیا کرتی تھی جنھیں کولی کہا جاتا تھا۔ لفظ کولی انگریزی میں پرتگالی سے لیا گیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انگریز اس لفظ سے ہندوستان میں ہی واقف ہوے ہوں۔انگریز اسے ک کے ساتھ لکھا کرتے تھے اور اردو میں اہل ترک کی وجہ سے قلی مستعمل ہوا۔منور رانا کا شعر ہے
؎بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہوجاتے ہیں
شنید ہے کہ جب انگریز آے تو انھوں نے نوکر کو Boyکہنے کا رواج ڈالا۔ ہوسکتا ہے کہ اس لفظ Boy میں Slaveچھپا بیٹھا ہو۔ کیوں کہ کمپنی کا دور انسانی لحاظ سے ایسا کوئی قابل قدر نہیں ہے اور ویسے بھی انگریز ہندوستانی عوام کو بلڈی سویلین ہی سمجھتی تھی۔ انگریزوں نے اپنی کالونیوں سے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو خرید کریا پھر مختلف حیلوں بہانوں سے ان کی آزادی کو چھین کر انھیں Slaveبنا کر اپنے کام نکلواے ہیں۔ویسے خدمت گاروں کو رقم دے کر خریدنے کی روایت بھی موجود رہی ہے جس کے لیے اردو زبان میں لفظ ”غلام“ مستعمل تھا۔حالاں کہ عربی زبان میں غلام سے مراد ایسا نوجوان لڑکا ہے جس کی مونچھیں اور داڑھی ابھی صرف نام کی ہو۔ اردو زبان میں ایسے لڑکے کے لیے اغلام کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔سنسکرت میں غلام کے لئے لفظ داس استعمال ہوتا ہے۔سراج فیصل خان اسی لفظ داس کو کس طرح اپنے شعر میں عبرت کا ساماں بناتے ہیں۔

لکھاہے تاریخ کے صفحہ صفحہ پر یہ
شاہوں کو بھی داس بنایا جاسکتاہے
ہوٹلوں میں کام کرنے والوں کی ایک قسم waiterبھی کہلاتی ہے۔اگر انگریزی زبان کے لفظ waiterکو دیکھیں تو اس سے مراد ایک ایسا ملازم ہے جو کھانے کی میز پر منتظر رہتا ہو۔ جسے آج سے چند سال قبل بیرا کہہ کر پکارا جاتا تھایہ انگریزی کے لفظ Bearerکی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ شروع کے ادوار میں بوجھ اٹھانے والوں کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ انگریزی میں یہ لفظ لاش کو قبر تک لے جانے والے کے لیے بھی مستعمل رہا ہے۔انگریز جب ہندوستان پر قابض ہوا تو نچلی ذاتوں کے لوگ جو چھوٹے موٹے کام کیا کرتے تھے ان کے لیے کئی قسم کے نام بھی ساتھ لایا جن میں یہ ایک یہ لفظ بھی تھا۔شروع میں تو پانی بھرنے والوں کو یہ لفظ دیاگیا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ان میں سے کچھ کو صاف ستھرے سفید کپڑوں میں ملبوس کرکے کھانے کی میزوں کے اردگرد تعینات کردیا گیا اوران کے ذمہ میزوں پر کھانا پہنچانالگا دیاگیا۔جب یہ لفظ ہندوستانیوں کے ہاتھ لگا تو انھوں نے دوسری زبانوں کے دیگر الفاظ کی طرح اسے بھی اپنی زبان پر چڑھانے کے لیے Bearerسے بیرا کردیا۔احمد راہی کی ایک نظم ”بہت ضروری بات اک تم سے کرنا تھی“ میں لکھا ہے
؎کوئی بیرانہ کوئی بٹلرنہ کوئی ماماں شاماں
کوئی گراج نہ کوئی کارکوئی ڈرائیورنہ خانساماں
کسی دور میں خانساماں کی بڑی عزت اور قدر ہوا کرتی تھی۔اس بات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مکاتیب امیر مینائی میں اسی خانساماں کے متعلق لکھا ہے کہ ”آپ کا ممنون ہوں خانساماں صاحب نے سفارش کی“ انگریز نے آکر جہاں ملک کو لوٹا وہی اس عالی مرتبت عہدے کو کم کرتے کرتے صرف کھانا پکانے تک محدود کردیا جب کہ اس سے قبل کسی بڑے گھرانے کے میرسامان کو خانساماں کہاجاتا تھا۔اگر خان کو الگ کردیا جاے اور ساماں کو علاحدہ تو میری بات کی تصدیق ہوسکتی ہے۔انگریزی کے لفظ بٹلر کی بات کروں تو لفظ سے ہیbottleعیاں ہوکر شراب کی ایک ولایتی قسم کی یاد دلاتی ہے۔یہ لفظ فرانسیسی زبان سے انگریزی میں آیا اور شروع میں wineکی رکھوالی کرنے والے کو Butlerکہتے تھے پھر آگے بڑھتے بڑھتے Headکے معنوں میں آیا اور پھر اسے گھر کے کاموں خصوصاََ کھانے سے جڑی چیزوں سے جوڑ دیا گیا۔سیماب اکبرآبادی کیا خوب کہہ گئے
؎کیوں جام شراب ناب مانگوں
ساقی کی نظر میں کیا نہیں ہے
کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن ان رازوں سے پردہ اٹھانا میرے بس میں کہاں؟ میں بھی سیکھ رہا ہوں آپ بھی تھوڑا تھوڑا کرکے میرے ساتھ سیکھتے جائیے۔احمد علوی صاحب کے شعر میں اگرچہ لفظ ادائیگی ادا ہوا ہے لیکن دل کو چھو سا گیا ہے آپ بھی پڑھ لیجیے
؎الفاظ کی ادائیگی طرزبیان سیکھ
کرنا اگر ہے عشق تو اردو زبان سیکھ

Leave a reply