روایات کی طرف لوٹ آئیں!!! — ڈاکٹرعدنان نیازی

0
30

میری دو دن قبل والی تحریر پڑھ کرکل ایک دوست نے اپنی سٹوری سنائی۔ اسے دوسرے ذرائع سے کنفرم کر کے لکھ رہا ہوں۔

وہ بتانے لگے کہ میرے والدین دوسرے شہر میں ہیں۔ مجھے جاب کے سلسلے میں فیصل آباد رہنا ہے تومیں نے شادی بھی یہیں کرنے کا سوچا۔ مختلف رشتہ داروں، جان پہچان والوں اور رشتہ سنٹرز کو رشتے کے لیے کہا۔ چونکہ میری جاب بہت اچھی ہے، تنخواہ لاکھوں میں ہونے کی وجہ سے رشتہ ڈھونڈھنا کچھ خاص مشکل نہیں تھا۔ میں نے سب رشتہ کرانے والوں کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ مجھے جاب والی لڑکی نہیں چاہیے۔ مجھے گھریلو لڑکی چاہیے ، چاہے اس کی تعلیم کم ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے باہر کے کھانے نہیں پسند تو اسے کھانا بنانا بھی آنا چاہیے، جہیز مجھے بالکل ہی نہیں چاہیے بس میری طرح شریف ہوں، اخلاق اچھا ہو۔

ایک جگہ بات تھوڑی آگے بڑھی تو والدین کے ساتھ دیکھنے گئے۔ وہاں کھانا بھی بہترین پیش کیا گیا۔ ہر چیز پر کہا گیا کہ میری ہونے والی بیوی نے ہی بنایا ہے۔ باقی سب کچھ بھی والدین کو اور مجھے پسند آیا تو یہ رشتہ طے ہو گیا۔

شادی کے بعدجب اسے فیصل آباد اپنے ساتھ لایا تو اس نے بتایا کہ مجھے تو کچھ بھی بنانا نہیں آتا۔ میں نے پوچھا کہ پھر شادی سے قبل آپ کے گھر والوں نے کیوں کہا تھا کہ سب آپ نے بنایا ہے۔

وہ بتانے لگی کہ رشتہ کروانے والوں نے کہا تھا کہ کھانے کا اچھا انتظام کر لینا اور کہہ دینا کہ لڑکی نے بنایا ہے سب۔ رشتہ ہو جائے گا تو پھر کون ان باتوں کو دیکھتا ہے۔ لاکھوں میں تنخواہ ہے لڑکے کی۔ وہ نوکرانی کا انتظام بھی کر ہی لے گا۔ تو امی اور خالہ نے مل کر بنایا اور کہا کہ میں نے بنایا ہے۔

وہ دوست کہنے لگے کہ مجھے اس جھوٹ پر غصہ تو آیا مگر اب شادی ہو چکی تھی۔ اس لیے اپنی بیوی سے کہا کہ چلیں اب سیکھ لیں۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ کچھ یو ٹیوب سے مدد لیں، کچھ امی ہے۔ کچھ کام والی بتا دے گی اور مدد بھی کروائے گی۔ لیکن آپ سیکھ لیں۔ مجھے نہ باہر کے کھانے پسند ہیں اور نہ ہی کام والی یہ اچھے سے کرتی ہے۔ لیکن میری بیوی نے اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ پہلے میں پیار سے سمجھاتا رہا، پھر تھوڑا غصہ کیا مگر اسے تو گویا کچن میں جانے سے ہی چڑ تھی۔

چھ ماہ تک گزارا کیا مگر جب اس نے اس معاملے میں بالکل ہی کوئی بات ماننے سے انکار کر دیا تو مجبوراً اسے میکے بھجوا دیا کہ شاید کچھ حالات بہتر ہوں۔ چار پانچ ماہ وہاں رہی لیکن اس کے والدین کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہم نے بیٹی کی شادی کی ہے، نوکرانی بنا کر نہیں بھیجا کہ آپ کے لیے کھانے بنائے۔

بیچ میں بزرگوں کو ڈالا تاکہ معاملہ سلجھ سکے ۔ مزید تین چاہ ماہ کے لیے اسے لے آیا۔ یوں ایک سال گزر گیا لیکن وہ اس پر بالکل بھی راضی نہ ہوئی۔

وہ دوست افسردہ لہجے میں کہنے لگے کہ جب بالکل ہی کوئی صورت نہ رہی تو میں نے ایک طلاق دے کر گھر بھیج دیا کہ شاید اس سے ہی کوئی فرق پڑے اور وہ کچھ لچک دکھائے۔ عدت تک انتظار کیا لیکن ان کی طرف سے ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

اس کے بعد میں نے دوسری شادی کی سوچا۔دوسری شادی تھی تو اچھی نوکری اور تنخواہ کے باوجود اب کی بار رشتہ ڈھونڈھنے میں بہت زیادہ مشکل پیش آئی۔ اب کی بار جہاں بھی رشتے کی بات چلی تو میں نے ہر جگہ یہ بھی شرط رکھی کہ ہونے والی بیوی سے گھر والوں کی موجودگی میں خود بھی یہ بات کروں گا۔جہاں بھی بات چلی تو پہلی شادی کی ناکامی کی وجہ ضرور بتائی تاکہ دوسری ناکام نہ ہو۔

دوسرا یہ کہ پہلے منگنی کی، کچھ عرصہ منگنی رہی۔ پھر گھر والوں کو بہنوں کو کہا کہ ان کے گھر اس دوران جائیں اور دیکھیں کہ وہ کچھ بناتی بھی ہے یا پھر سے ویسا ہی نہ ہو ۔ پھر جا کر دل مطمئن ہوا اور اب اللہ کا شکر ہے کہ دوسری شادی کے بعد میرا گھر پرسکون چل رہا ہے۔ میں اپنی بیوی کا خیال رکھتا ہوں اور وہ میرا۔

وہ دوست بتانے لگے کہ آج کل جاب والی لڑکی کا رشتہ تو بآسانی مل جاتا ہے، والدین لاکھوں کا جہیز بھی دینے کو تیار ہوتے ہیں لیکن گھر سنبھالنے کی بات کریں تو ایسے گھورتے ہیں جیسے پتہ نہیں کتنی غلط بات کر دی ہے۔ حالانکہ یہ کتنا خوبصورت نظام ہے کہ میاں بیوی زندگی اچھے سے گزارنے کے لیے مل کر رہیں، مرد باہر کے کام بہت احسن طریقے سے کر سکتا ہے تو وہ کمانے کی ذمہ داری نبھائے، باہر کے سارے کام کرے اور عورت گھر کے اندر کے سارے معاملات کو دیکھے۔

ہمارے والدین کی زندگیوں میں اسی وجہ سے سکون تھا اور کم پیسے میں بھی سب بہترین چلتا رہا۔ اب پیسے کی دوڑ میں دونوں کمانے کے چکروں میں اپنا سکون ہی برباد کر بیٹھے ہیں۔ نہ بچوں کو توجہ، پیار ملتا ہے نہ شوہر کا خیال رکھ پاتی ہے۔لیکن عورت جاب بھی کرتی ہو تب بھی گھر کے کاموں کا اضافی بوجھ بھی اسی پر ہوتا ہے۔ کاش کہ ہم پیسے کے لالچ کی بجائے اپنی روایات کی طرف لوٹ آئیں اور پرسکون زندگی گزاریں۔

Leave a reply