رحم دل بھیڑئیے اور معصوم بکریاں تحریر زوہیب خٹک

فیمنزم کی اصطلاح کا ہمارے معاشرے میں جنم نیا نیا ہوا ہے اس لیے زیادہ تر لوگ اس سے نا آشنا ہیں۔ اس تحریک کی تاریخ اٹھارویں صدی سے ملتی ہے جبکہ اس کا باقائدہ آغاز انیسویں صدی کے اوائل میں ہوا جس میں خواتین کے لیے صحت تعلیم اور مردوں کے برابر تنخواہیں جیسے حقوق کے مطالبات سرِِفہرست تھے۔ انیسویں صدی کے آخر تک اس تحریک میں "اسقاطِ حمل، ہم جنس پرستی اور زنا بِل رضا” جیسے دیگر کئی قانونی حقوق کی مانگ بھی شامل ہوگئی۔ جس کی وجہ سے یہ تحریک اپنے اصل مقاصد سے بہت پیچھے رہ گئی اب اس تحریک کو یورپ جیسے آزاد معاشرے ہوں یا ہمارے جیسے قدامت پسند معاشرے دونوں میں ایک غیر سنجیدہ تحریک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

جہاں اس تحریک سے خواتین کو چند فائدے بھی ہوئے جیسا کہ جنسی درندگی کے خلاف سخت سزائوں کے قوانین بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام خواتین کا اعلیٰ سرکاری و نجی اداروں میں شمولیت اختیار کرنا۔ وہیں ساتھ ہی ساتھ مردوں سے نفرت پر مبنی نعرے ہم جنس پرستی اسقاطِ حمل اور زنا بِل رضا جیسے مطالبات نے اس تحریک کا بیڑا غرق کرنے میں بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی۔

پاکستان میں اس تحریک کا روحِ رواں عورت مارچ والا لبرل طبقہ ہے جس کا مشہور نعرہ "میرا جسم میری مرضی” مغربی معاشرے میں "اسقاطِ حمل کے قانونی حقوق کی مانگ” سے درآمد کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر ایک مغربی مصنف "رابن سٹیونسن” کی کتاب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے ۔ ہمارے ہاں اس تحریک میں اکثریت اُسی مغرب زدہ سوچ رکھنے والے مزہب بیزار لوگوں کی ہے۔ یہ طبقہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی مغربی طرز پر سیکولرزم کو فروغ دے کر ننگ دھڑنگ آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جس کا یہ سوشل میڈیا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر برملا اقرار بھی کرتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ جو مظبوط خاندانی نظام پر کھڑا ہے جہاں ماں بہن بیٹی بیوی بہو جیسے باوقار رشتے ہیں اس خاندانی نظام پر ضرب لگا کر ہمارے معاشرے میں بھی یہ عورت کو بے توقیر اور بے وقعت کرنا چاہتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کی آڑ میں بیرونی فنڈنگ پر چلنے والی این جی اوز "ایک رحم دل بھیڑئیے کا روپ دھارے ہوئے ہیں جو عورتوں کو چادر چار دیواری کے حفاظتی حصار سے باہر نکال کر جنگل کی رونقیں دکھا رہے ہیں تاکہ یہ جب چاہیں جیسے چاہئیں عورت کو اپنی ہوس کا شکار بنا سکیں۔

جیسے تحریک طالبان پاکستان کا نعرہ شریعت کا نفاذ تھا لیکن اصل میں وہ کم عمر بچوں کی زہن سازی کر کہ انہیں جنت کے خواب دکھا کر بے قصور پاکستانیوں کا قتلِ عام کروا رہے تھے۔ ایسے ہی یہ دیسی فیمنسٹ طبقہ نعرے عورتوں اور بچوں کے حقوق کے لگاتا ہے لیکن اصل میں یہ نوجوان نسل کی ذہنی اخلاقی دینی اور معاشرتی تباہی کر رہے ہیں۔

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئیے مل کر مظلوم عورتوں کے شرعی حقوق اور مجرموں کی شرعی سزاؤں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ تو یہ مذہب بیزار طبقہ اپنی اصلیت دکھا دیتا ہے۔اور ان کی اسلام سے نفرت اور بیزاری کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ آج مجھ جیسے چند لوگ اگر بابانگِ دہل ان کے مذموم مقاصد اور اس تحریک کے پسِ پردہ حقائق عوام پر آشکار کر رہے ہیں تو ہمیں شدت پسند دقیانوسی اور نا جانے کیسے کیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔

جان لیجیے کینسر ایک ایسا موذی مرض ہے جس کا شروع میں ہی جڑ سے خاتمہ نا کیا جائے تو وہ پورے جسم میں پھیل جاتا ہے اور پھر لا علاج ہو جاتا ہے اس سے پہلے کہ فیمنزم کا یہ مرض ہمارے معاشرے میں پھیل جائے اور پورے معاشرے کی ذہنی اخلاقی دینی اور معاشرتی موت واقع ہو جائے۔ ہم سب کو اس مرض کا موثر علاج کرنا ہوگا تاکہ ہمارا ملک جو نظریہ پاکستان کی بنیاد پر بنا تھا وہ اپنی اسلامی اقدار کے ساتھ قائم و دائم رہ سکے۔

Twitter @zohaibofficialk

Comments are closed.