دوجسم یک جان ترکی اورپاکستان،تحریک خلافت سے لے کرقیام پاکستان تک،ترکی اورپاکستان کے تعلقات پر ایک نظر

0
123

لاہور:تحریک خلافت خلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنھم کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس سے ہوتی ہوئی ترکی کے عثمانی خاندان کو منتقل ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت اسلامی سلطنت کا مرکز ترکی تھا اور اس کے سربراہ خلیفہ عبد الحمید تھے۔

خلفائے راشدین نے دار الحکومت کا درجہ مدینہ منورہ کو دیا جبکہ حضرت علی نے انتظامی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے دار الحکومت کو کوفہ منتقل کیا۔ بنوامیہ کے دور میں دار الحکومت کوفہ سے دمشق لے جایا گیا. بنی عباس کے دور میں دار الحکومت کی سرگرمیوں کا مرکز بغداد بنا۔ بغدادکی تباہی (1258ء ) کے بعد دار الحکومت کو قاہرہ میں لے جایا گیا۔ 1518ء میں ترک عثمانی بادشاہ سلطان سلیم نے خلافت کے اختیارات سنبھال کر دارالحکومت قسطنطنیہ (استنبول) کا اعلان کیا ۔

پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ ترکی کی جنگ میں شمولیت سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے، اس وعدے پر، وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے رضامندی ظاہر کی کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رکھا جائے گا.

جنگ میں جرمنی کو شکست اور برطانیہ کو فتح ہوئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بصرہ اور جدہ میں داخل کر دیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کو وعدے یاد دلانے کے لیے اور خلافت کے تحفظ کے لیے ایک تحریک شروع کی جسے "تحریک خلافت” کا نام دیا گیا۔


1919ء کے آس پاس یہاں کے مسلمانوں نے اس کا آغاز کیا جس میں سب سے پیش پیش تھے مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی۔ اسے انڈین کانگریس اور اس کے ہندو لیڈروں نے بھی حمایت دی اور دونوں کے جلسے اکثر ایک ہی پنڈال میں ہوا کرتے تھے۔ مہاتما گاندھی اور پنڈت موتی لال نہرو اس کے سرگرم حامیوں میں شامل تھے۔

خلافت تحریک ایک خالص مذہبی تحریک تھی اور اس کا مقصد تھا خلافت عثمانیہ کا تحفظ۔ خلافت کا مطلب تھا اسلامی طرز حکومت اور مسلمانوں کی اجتماعی لیڈر شپ۔ عام مسلمان تو بکھراؤ کا شکار تھے اور ان کی حقیقتاً کوئی لیڈر شپ نہیں تھی مگر ایک علامتی خلیفہ ترکی میں موجود تھا جو اس بات کی علامت تھا کہ مسلمان متحد ہیں یا ان کا ایک مرکز ہے۔

انگریزوں کویہ بھی گوارا نہ تھا کہ مسلمانوں کی کوئی علامتی لیڈر شپ رہے اور وہ ترکی کی خلافت کو ختم کرکے اس کے علاقوں کو تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ عرب اور عراق تک اس کی حکومت قائم تھی جس کے خلاف پہلے عرب قوم پرستی کی تحریک شروع کی گئی جس کے پس پشت مسلم قوم پرستی کو ختم کرنے کا پلان تھا اور اس میں برطانیہ و اس کے حواری کامیاب بھی ہوئے۔

مغربی ملکوں کے منشا کو تمام مسلمانوں نے بھانپ لیا تھا ااور اس کے خلاف انھوں نے تحریک خلافت شروع کردی تھی۔ یوں تو سنٹرل ایشیا میں بھی مسلمانوں کی طرف سے ترکی کے بندر بانٹ اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے خلاف آواز اٹھ رہی تھی مگر ہندوستان میں اس کے خلاف زبردست تحریک شروع ہوچکی تھی۔ ان دونوں علاقوں کے مسلمانوں سے خود آخری عثمانی تاجدار خلیفہ عبدالحمید دوئم کو بھی بہت امید تھی، جس کا اظہار انھوں نے اپنی ایک ڈائری میں کیا ہے:

’’وہ ایشیا میں پندرہ کروڑ مسلمانوں پر حکومت کرتے تھے، یہ لوگ خلافت عثمانیہ کے حامی تھے۔ مجھے اس صورتحال کی خبر تھی۔ میں نے وسط ایشیا اور دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کے لئے بہت سے معزز اصحاب، شیوخ طریقت اور درویش بھیجے۔ ان لوگوں نے اسلامی اخوت کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے بڑا کام کیا۔ شیخ سلیمان آفندی بخاری ان مین سے ایک تھے۔

ہندوستانی مسلمان بھی دولت عثمانیہ کے ساتھ گہرا جذباتی رشتہ رکھتے تھے۔ ہم پر جب بھی کوئی افتاد پڑتی ہے بے چین ہوجاتے ہیں۔ہمارے ساتھ انگریزوں کا جو طرز عمل تھا اس سے سخت نالاں تھے۔ انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ انگریز ی حکومت ، دولت عثمانیہ کے ساتھ امن و مان سے رہے۔ مسلمانوں کی اس ہمدردی سے ہمیں آزمائش کی گھڑیوں میں تقویت ملتی تھی۔‘‘

خلیفہ کی یہ یاد داشت 18مارچ 1917ء کی تحریر کردہ ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان خلافت کمیٹی کے قیام سے پہلے بھی خلافت عثمانیہ کے حامی تھے اور اسے قائم رکھنا چاہتے تھے۔ حالانکہ1919 ء اور1924ء کے دوران یہ تحریک زیادہ زوروں پر تھی۔

خلافت تحریک میں کانگریس کے لوگوں کی شمولیت رہتی تھی اور دونوں کے لیڈران اتحاد کے ساتھ کندھے سے کندھ املا کر ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ دونوں ہی انگریزوں کے مخالف تھے اور دونوں کی لڑائی انگریزوں کے ساتھ تھی۔ عثمانی خلافت ہندوستان کی آزادی کی حامی تھی اور اس نے مولانا محمود حسن کی حمایت کی تھی جو آزادی کے لئے لڑ رہے تھے۔

خلافت کمیٹی کا صدر دفتر لکھنو مین تھا اور اس تحریک میں اس وقت کے تمام بڑے مسلم لیڈران اور علماء شامل تھے۔ آکسفورڈکے تعلیم یافتہ صحافی مولانا محمد علی جوہر نے تو اس کے لئے چار سال جیل میں گزارے تھے۔ان کے ساتھ ان کے بھائی مولانا شوکت علی بھی تھے اور جب وہ جیل میں تھے تو ان کی غیر موجودگی میں اس تحریک کی قیادت کے لئے بیگم محمد علی جوہر سامنے آگئی تھیں۔

خلافت تحریک کے قائدین میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا حسرت موہانی، رئیس المہاجرین بیرسٹر جان محمد جونیجو، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خاں اور شوکت علی صدیقی سمیت پورے ملک سے ہزاروں افراد شامل تھے۔البتہ اس کمیٹی کے ممبران کی تعداد تیس تھی جن میں دہلی، ممبئی ، کلکتہ، علی گڑھ، لکھنو، گورکھپور، مظفر پور، پٹنہ سمیت ملک کے کئی خطوں کے علماء، دانشور، صحافی اور لیڈران شامل تھے۔

خلافت کمیٹی کی تحریک اور جلسوں میں گاندھی جی بھی شامل رہتے تھے اور اسے ہندو۔مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر پیش کیا کرتے تھے مگر رفتہ رفتہ کئی حلقون سے اس کی مخالفت شروع ہوگئی۔ مسلمانوں میں مسلم لیگ تو ہندوون میں ہندو مہا سبھا نے اس کی مخالفت کی کہ ایک خالص اسلامی ایشو پر کانگریس کا ساتھ لینے کی کیا ضرورت ہے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب مولانا محمد علی جوہرؔ نے مسلم لیگ جوائن کرلی۔

حالانکہ تب تک مسلم لیگ کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کی بات کرناتھا اور پاکستان کی قرار داد سامنے نہیں آئی تھی۔ خلافت اور ترک موالات کی تحریک ایک ساتھ چل رہی تھی اور اسی کے بطن سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کی تحریک شروع ہوئی تھی۔ یہ تحریکیں اس قدر طاقتور تھیں کی انگریزوں کو پہلی بار احساس ہوا کہ ہندوستانی اس پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

خلافت تحریک کے زور کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں میں ایک اور تنظیم قائم ہوئی جس کا نام تھا مجلس احرار اسلام۔ اسے سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے قائم کیا تھا جن کی پشت پر چودھری افضل الحق تھے مگر اسی کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد اور حکیم اجمل خان جیسے کانگریسی لیڈروں کی بھی حمایت حاصل تھی جو گاندھی جی کے سخت حامیوں میں تھے۔

مسلمانوں کی زوردار تحریک کے باوجود انگریزوں پر کوئی اثر نہیں ہوا اورخلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا،اوربرصغیرکے مسلمانوں کواس بات کا دلی دکھ ہوا اوروہ اس وقت سے لیکرآج تک اسی تحریک خلاف کے نام پرمخلف تحریکیں قائم کرکے،تنظیموں کی بنیاد رکھ کراس سے اپنا پرانا تعلق جوڑے ہوئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ترکی بھی اسی وجہ سے برصغیراورخصوصا پاکستان سے اورپاکستان کے لوگوں سے محبت کرتا ہے ، ترک قوم عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اورپاکستان کے لیے اپنا من دھن قربان کرنے کےلیے تیارہے

جہاں تک تعلق ہے قیام پاکستان کے بعد سے لیکراب تک تویہ بات یاد رہنی چاہیے کہ پاکستان کو تسلیم کرنے والے ممالک میں ترکی صف اول میں شامل تھا جب دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا تو ترک سفیر کی اسناد وصول کرتے ہوئے قائداعظم نے دونوں ممالک کے مابین موجود روحانی، جذباتی اور تہذیبی رشتوں کا بالخصوص ذکر کیا۔ ترکی دنیائے اسلام کا واحد ملک ہے جس سے ہمارے انتہائی گہرے مراسم گزشتہ 70 سال سے تسلسل سے قائم ہیں۔

ترکی اور پاکستان میں دوستی کا باضابطہ معاہدہ 1951ء اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954ء میں وجود میں آیا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ’’ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا ہے کہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے‘‘۔

ترکی میں دائیں بازو یا بائیں بازو یا فوجی آمریت ہی کیوں نہ ہو، ہمارے ساتھ ترکی کے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں جہاں ترکی ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی غیر مشروط حمایت کرتا رہا ہے وہیں 1954ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان نے قبرص کے مسئلے پر ترکی کا بھرپور ساتھ دیا اور قبرص پر ترکی کے حق کو فائق گردانا۔ 1962ء میں ترک اور یونانی قبرصیوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔

ترکی نے مسلم قبرصیوں کے تحفظ کے لئے افواج روانہ کر دیں۔ جس سے یونانی اور ترکی میں بہت بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ تاہم اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی مداخلت کے سبب جنگ ٹل گئی۔ پاکستان نے اِس سارے دور میں ترکی کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔ سیاسی اور سفارتی سطح پر ترک مؤقف کی حمایت کی اور ترکی کو مکمل فوجی تعاون کا یقین دلایا۔

ترک حکومت پاکستان کی حمایت سے بے حد متاثر ہوئی کہ انہوں نے وزیر خارجہ فریدوں کمال کو خصوصی دورہ پر کراچی بھیجا گیا تاکہ حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا جا سکے۔ اگرچہ کشمیر کی طرح قبرص کا مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے تاہم ترک قبرصیوں کی حمایت میں پاکستان کا مؤقف ہمیشہ ترکی کی حمایت میں اٹل رہا۔ 1984ء میں قبرص کا مسئلہ نئے سرے سے اقوام متحدہ کے سامنے آیا تو پاکستانی مندوب شاہ نواز نے ترک قبرصیوں کے مسلمہ حقوق کی بازیابی کے حق میں زوردار تقریر کی۔

پاکستان دفاعی معاہدہ بغداد میں ترکی اور عراق کے ساتھ شریک رہا ہے۔ 1965ء کی جنگ میں ترکی نے پاکستان کو فوجی سازوسامان، اسلحہ گولہ بارود اور توپیں فراہم کیں۔ پاکستانی زخمی فوجیوں کے لئے ڈاکٹرز اور نرسوں کے وفود 1965ء اور 1971ء میں ترکی سے پاکستان آئے۔ 1964ء میں معاہدہ استنبول کے تحت ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان علاقائی تعاون برائے ترقی (آر۔سی۔ڈی) کے نام سے موسوم تنظیم وجود میں آئی۔

اگرچہ اِس تنظیم نے تینوں ممالک کے درمیان تجارتی، سیاحتی اور ذرائع آمدورفت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ آج کل یہ تنظیم علاقائی معاشی کونسل کہلاتی ہے۔ آج کل پاکستان خصوصاً پنجاب کے بڑے بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد میں ویسٹ مینجمنٹ اور کئی بجلی گھر سڑکوں کی تعمیر جیسے منصوبے ترکی کے تعاون سے چل رہے ہیں۔ میاں نواز شریف ترک صدر رجب اردوان سے بے حد متاثر ہیں مگر انہیں اپنے عوام پر اس قدر دسترس حاصل نہیں ہے کہ ان کے ایک اشارے پر عوام ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں گے۔ یہ خوش نصیبی صرف اردوان کے لئے ہی خدا نے مخصوص کی۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔

پاکستان میں حکومت کسی کی بھی ہو اس کے ترکی کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں۔ تجارت سے لے کر فوجی تربیت اور فوجی معاہدوں تک دونوں ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ترک میڈیا میں چھپنے والا اطلاعات کے مطابق گذشتہ سال پاکستان اور ترکی کے درمیان تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی مالیت کا فوجی معادہ ہوا تھا۔ اسی طرح ترک فوجی پاکستان میں آ کر تربیت لیتے ہیں اور پاکستانی فوجی ترکی جا کر۔ بلکہ پاکستان کے سابق فوجی آمر اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے تو اپنی ترکی میں ایک لمبے عرصے تک تعلیم حاصل کی تھی۔ ترک جمہوریہ کے بانی کمال اتا ترک تو ان کے آئیڈیل تھے۔ اسی طری موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان بھی کمال اتا ترک کے ترکی ماڈل کا ذکر کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔

پاکستان میں کئی شاہراہیں کمال اتا ترک کے نام پر ہیں جبکہ ترکی کی اہم مصروف شاہراہ جناح جادیسی پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے نام پر ہے۔

لیکن کیا ہمیشہ ہی تعلقات بہتر رہےویسے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تعلقات کبھی خراب نہیں ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ ان میں دراڑ افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران اس وقت آئی جب پاکستان طالبان کی جبکہ ترکی شمالی اتحاد کی حمایت کر رہا تھا۔ شمالی اتحاد میں زیادہ تر ازبک اور ترک نژاد افغان تھے جبکہ طالبان میں اکثریت پختون کی تھی جن کی پاکستان حمایت اور مدد کر رہا تھا۔ اور دونوں گروہ ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے۔

اس کے علاوہ ترکی چین میں مسلم اویغوروں کی ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کی حمایت کرتا ہے جبکہ پاکستان اپنے ہمسائے اور درینہ دوست چین کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اور ای ٹی آئی ایم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ پاکستان نے اپنی سرحد کے اندر ایسے کئی اویغروں کو ہلاک کیا ہے جن پر شبہ تھا کہ وہ چین میں شدت پسند کارروائیوں میں ملوث تھے۔

Leave a reply