مصیبت کی گھڑی میں پکار کی اہمیت_!!!—از—-جویریہ چوہدری

0
64

تصور کی لہروں پر سفر کرتے کرتے میری سوچوں کا دھارا مجھے دور کہیں بہت دُور کے دور میں لے گیا…
کورونا وبا کے خدشات،صورت حال اور بدلتی دنیا کے پس منظر میں تدابیر،حفاظتی اقدامات اور بے بسی سبھی سوچوں کے سمندر میں مختلف زاویے بنا رہے تھے…
قوم میں افواہیں،ہیجانی کیفیت،اور خوف کے سائے…وسائل کی کمی،مشکل صورت حال میں کیا ہو گا وغیرہ…

یہ سچ ہے کہ جب مصیبت یا بلا و وبا سے سامنا ہوتا ہے تو بسا اوقات وسائل و اسباب بھی کارگر ثابت نہیں ہوتے…
یہی وجہ ہے کہ ان اسباب اور وسائل کو اختیار کر کے ان کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے کا انجام اس ذات پر ہی چھوڑ دینا چاہیئے جو تمام وباؤں اور بلاؤں کو ٹالنے کی قدرت و اختیار رکھتی ہے…
ان وائرس کے پھیلنے اور مرض کا محرک بننے کا اذن بھی اسی کی طرف سے ہوتا ہے

بحثیت مسلمان قوم کے ہمارا یہی ایمان ہے اور ہونا چاہیئے…!!!
مصیبت کی گھڑیوں میں اسے پکارنے کی بھی ایک اپنی ہی شان اور مزہ ہے…
اور مذہب پر یقین رکھنے والے اس سے انکار نہیں کر سکتے…!

قرآن مشرکین کی حالت زار کا نقشہ بھی یوں ہی کھینچتا ہے کہ جب تُند و تیز ہواؤں اور طوفانی لہروں کی زد میں ان کی کشتیاں پھنس جاتی ہیں…
ملاح بے بس ہو جایا کرتا تھا
ٹیکنالوجی ساتھ دینے سے انکار کر دیتی تھی…

معبودانِ باطل کہیں نظر نہیں آتے تھے
مدد کو نہیں پہنچتے تھے تو وہ اسی اکیلے اللّٰہ کو اخلاص کے ساتھ پکارتے…
جب کشتی طوفانی لہروں کے بھنور سے نکل کر ساحل کی خشکی پر پہنچتی تو ان کے وہی رنگ ڈھنگ ہو جاتے…

مشکل حالات گزر جانے کے بعد پرانی روش اختیار کر کے اللّٰہ کے شریک بنانے لگتے…
تو اللّٰہ تعالٰی نے انسانیت کی رہنمائی کرتے ہوئے قرآن مجید میں اُن کی اس ادا و انداز کو سخت نا پسند فرمایا ہے…!!!

پرت در پرت واقعات ذہن کے دریچوں پر جھلملانے لگ گئے__
وہ نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا ناں۔۔۔

باپ کی شفقت پدری نے جوش مارا اور پکارا کہ اے بیٹے !!!!
آ جاؤ ہمارے ساتھ اس کشتی پر سوار جاؤ…

تب بیٹے نے بڑی لا پرواہی سے جواب دیا، نہیں میں موجوں کے مقابل پہاڑ پر پناہ لے لوں گا…
نوح علیہ السلام نے کتنا دردِ دل سے کہا ہو گا_:

لا عاصم الیوم الا من رحم ربی_
اور اس کے اور پہاڑ کے درمیان منہ زور موج حائل ہو گئی تھی…!!!!!

یادوں کی لہروں کا سفر جاری تھا…میرے ذہن میں یونس علیہ السلام کا واقعہ آیا…
جب قوم کو اللّٰہ کے عذاب سے ڈرا کر کشتی میں سوار ہو گئے تھے

کشتی ہچکولے کھانے لگ گئی تو کسی مسافر کی کمی کی تجویز پیش گئی…
معاملہ قرعہ اندازی تک پہنچا تو حضرت یونس علیہ السلام ہی دریا کی لہروں کے سپرد کیئے جانے والے ٹھہرے__

لہروں میں جاتے ہی مچھلی نے صحیح سالم نگل لیا…
اُس مچھلی کے پیٹ کے اندر وقت کے پیغمبر نے کیا کہا تھا_؟

لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین¤
تب خالق کائنات نے اپنے پیغمبر کی اس ادا کی کتنی بھاری جزا رکھی تھی کہ:

"پس اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو لوگوں کے دوبارہ اٹھائے جانے تک اس(مچھلی) کے پیٹ میں رہتے__!!!”
اس دعا نے صدیوں تک متوقع سفر کو کس قدر جلدی سے طے کر دیا…؟
ہاں یہ پکار کتنی اہمیت رکھتی ہے__!!!

کہ ایمان والوں کو نصیحت کی گئی کہ جب تم حالتِ جنگ میں ہو تو ثابت قدم رہو اور اللّٰہ تعالٰی کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ فلاح و کامرانی تمہارا مقدر ٹھہرے…
اس پکار کے عمل سے ہی مدد آیا کرتی ہے…

کائنات کا خالق و مالک ہماری پکار پر ہماری طرف متوجہ ہو کر ہماری فریاد سنتا ہے اور اس سے نکلنے کی راہیں ہموار کرتا ہے…!!!
تبھی اپنا پیغام پہنچا دیا کہ

کہہ دو اے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم_!!!
اگر تمہاری دعائیں نہ ہوں تو میرا رب بھی متوجہ نہیں ہوتا__!!!(الفرقان)۔

ابراہیم علیہ السلام نے کیا کہا تھا؟
اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے…!!!

رحمتِ عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دعا کو ہی عبادت کہا…
پیارے پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہر موقع اور وقت کے لیئے کی گئی وسیع المعانی دعائیں ہمارا زادِ سفر ہیں…

اے قوم__!!!
انتظامیہ و قوانین نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے دی گئی ہدایات اوراحتیاطی تدابیر، اختیار کرنے کے بعد اپنے رب سے رابطہ بھی مضبوط کر لیجیئے…

اپنے گھروں کے اندر رہتے ہوئے بھی انہیں مسجدوں کی صورت بنا لو__!!!
توبہ کے سجدوں میں گڑگڑا کر اسے راضی کریں اور اپنے گناہوں کی مغفرت مانگتے ہوئے آئندہ ان کا اعادہ نہ کرنے کا عہد کریں…

ہماری حفاظت کی خاطر تدبیر کے لیئے لاک ڈاؤن کی صورت میں اُس سے تعلق کو لاک نہ ہونے دیں اور کسی گھمبیر صورت حال سے بچنے کی دعائیں مانگیں…
کہ یہ وبا ہم پر سے جلد از جلد چھٹ جائے کہ
یمحو اللّٰہ ما یشآء و یثبت،و عندہ علم الکتٰب¤[الرعد]۔

"اللّٰہ جسے چاہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہے ثابت رکھتا ہے،اور اسی کے پاس لوح محفوظ ہے…!!!”

پس اس کی رحمت کا اتنا سوال کیجیئے کہ وہ ہمارے اوپر سے اس وبا کو مٹا دے…
لغزشوں کو مغفرت اور بدبختیوں کو سعادتوں میں بدل دے…!!!

معاشی اور اقتصادی بحران اس قوم کو نہ ڈسنے پائے اور افراتفری کی بجائے احتیاط کی جائے…!!!
کہ ہم بے بس اور محدود وسائل والے اور لاریب اس کی رحمت و خزانے لا محدود ہیں…!!!

یہ پکار مصیبت میں بہت بڑی دوا ہے، یہ تمام رکاوٹوں،موسمی تغیرات،فضاؤں اور خلاؤں کا سینہ چیرتی سیدھی عرش والے کے پاس پہنچتی ہے اور وہی تو اس کائنات کا پیدا کرنے والا اور اس میں بستی تمام مخلوقات کا رب ہے…!!!
ہم حالتِ جنگ میں ہیں،کئی محاذوں پر جنگ اور جنگی حالات میں کثرت سے اللّٰہ کا ذکر کایا پلٹ دیا کرتا ہے…
واذکرو اللّٰہ کثیر لَّعلَّکُم تفلحون¤

اسباب اختیار کر کے ان کے انجام کو مسب الاسباب پر چھوڑ دینا توکل اور یقین کا ہی حصہ ہے،جس سے ہمارے دین نے ہمیں منع نہیں فرمایا ہے بلکہ اس کی تاکید کی ہے…!!!
احتیاطی تدابیر اپنانے کے بعدبیماریوں سے بچاؤ اللّٰہ تعالٰی کے سپرد کر دینا، اور اپنے ایمان،توحید اور توکل کی مضبوطی کے ساتھ اعمال کی درستگی اور اخلاق و آداب کی اصلاح پر توجہ آج کی اہم ترین ضرورت ہے_!!!

مومن اسباب اختیار کر کے ان پر تکیہ نہیں کر بیٹھتا بلکہ ان کے مؤثر ہونے کے لیئے ان اسباب کے مالک کی طرف رجوع کرتا ہے کہ اس کے رحم کا ساتھ جسم میں روح کی طرح ضروری ہوتا ہے…
اے ہمارے رب !!!
ہم پکارتے ہیں:
ربنا ولا تحملنا ما لا طاقۃ لنا بہ واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مَوْلٰنَا،اَنتَ مَوْلٰنَا،اَنتَ مَوْلٰنَا_واحفظنا مِمِّا نخافُ و نَحذر_!!!
آمین ثم آمین…!!!

==========================🌻🌻🌻

مصیبت کی گھڑی میں پکار کی اہمیت_!!!
تحریر✍🏻:(جویریہ چوہدری)۔

Leave a reply