مزید دیکھیں

مقبول

رپورٹ پٹواری مفصل ہے.تحریر:مبشر حسن شاہ

قدرت اللہ شہاب اپنی خود نوشت شہاب نامہ کے باب ڈپٹی کمشنر کی ڈائری میں عیدو نامی سائل کی داستانِ حسرت بیان کی ہے۔ انبالہ سے ہجرت کرکے ضلع جھنگ میں آباد ہونے والے اس مہاجر کو متروکہ اراضی الاٹ ہوئی تھی جس پر کاشتکاری کے ذریعے وہ اپنے خاندان کی کفالت کر رہا تھا مگر اس دوران کسی بے رحم پٹواری نے الاٹمنٹ منسوخ کرنے کی دھمکی دی تو اس نے گورنر پنجاب، وزیراعلیٰ، وزیر بحالیات، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور دیگر حکام کو داد رسی کیلئے درخواست بھجوا دی۔ لاٹ صاحب، وزیراعلیٰ، وزیر بحالیات و دیگر حکام کے دفاتر کا طواف کرنے کے بعد یہ درخواستیں ’’برائے مناسب کارروائی‘‘ سرکاری افسروں کی میز پر آتی گئیں اور فرض شناس افسر رپورٹ طلب کرنے کیلئے اسے ماتحت حکام کی طرف بھجواتے چلے گئے یہاں تک کہ یہ تمام درخواستیں افسر مجاز یعنی اسی پٹواری کے پاس جا پہنچیں جو اس غریب سائل کی اراضی ہڑپ کرنے کے درپے تھا۔ اس نے ازراہ تلطف، سائل عیدو کو پٹوار خانے طلب کیا اور ان درخواستوں کا پلندہ اس کے منہ پر دے مارا۔ اس کے بعد پٹواری نے لگی لپٹی رکھے بغیر تنک کر کہا ’’اب تم یہ درخواستیں جھنگ، ملتان یا لاہور لے جائو اور ان کو اپنے سالے باپوں کو دے آئو‘‘عیدو اس تذلیل و تحقیر کے بعد بھی کوئے داد رسی کے طواف سے باز نہ آیا اور سرکاری دفاتر کی خاک چھانتا رہا۔ اس دوران پٹواری نے اس کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی اور ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے بعد رپورٹ تحریر فرمائی ’’جناب عالی! سائل مسمی عیدو فضول درخواست ہائے دینے کا عادی ہے۔ اسے متعدد بار سمجھایا گیا کہ اس طرح حکام اعلیٰ کا وقت ضائع کرنا درست نہیں، لیکن سائل عیدو عادتاً درخواست گزار ہے اور اپنی اسی عادت سے مجبور ہوکر بارہا درخواستیں دیتا ہے ۔ سائل کا چال چلن بھی مشتبہ ہے اور اس کا اصل ذریعہ معاش فرضی گواہیاں دینا ہے۔ مشرقی پنجاب میں اس کے پاس کوئی زمین نہیں تھی۔ بمراد حکم مناسب رپورٹ ہذا پیش بحضورِ انور ہے‘‘ گرداور اور قانون گو نے یہ لکھ کر درخواستیں تحصیلدار کے دفتر بھجوا دیں کہ ’’رپورٹ پٹواری مفصل ہے‘‘۔ درخواستیں اسی گول دائرے میں گھومتی ہوئی ان اعلیٰ حکام کے پاس واپس آگئیں جنہوں نے ’’برائے مناسب کارروائی‘‘ مارک کیا تھا۔ اس دوران ہر سرکاری افسر نے ایک ہی جملے کا اضافہ کیا ’’رپورٹ پٹواری مفصل ہے‘‘۔اور آخر میں

آج فیس بک پر ایک ویڈیو نظر سے گزری پہلے تو صرف نظر کیا کہ آواز سگاں کم نہ کند رزقِ گدارا۔ پھر واپس سکرول کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ سپیکر پنجاب اسمبلی ایم پی اے حلقہ 179 قصور محمد احمد خان ایک میٹنگ کی صدارت فرماتے ہوئے گویا تھے کہ اساتذہ کا کوئی ایشو ہے ایک نہیں چھ سے سات جگہ میرے علم میں آیا ہے کہ ٹیچرز اپنے بزنس کر رہے ہیں اور سکول انہوں نے اپنی جگہ 10000 پر بندہ رکھا ہوا ہے خود لے رہے ہیں پچاس ساٹھ ہزار ستر ہزار اور گھوم رہے ویسے صاحب کی اپنی تنخواہ کتنی ہے؟؟؟؟9 لاکھ پچاس ہزار ماہانہ معہ ایک شاندار سرکاری رہائش بجلی گیس مفت , میڈیکل مفت سکیورٹی کے نام پر مسلحہ لشکر بھی۔ ابھی جولائی 24 میں جناب سپکیر صاحب نے 10 کروڑ کی LC300 لینڈ کروزر سرکار سے لی ہے اسی لیے تو کسی انکل سرگم لے نام سے مشہور کامیڈی اداکار نے کہا ہے گریڈ 1 تا 17 والے مخلوق اور اوپر گریڈ والے اشرف المخلوقات ہیں۔ اس ویڈیو میں اشرف المخلوقات نے برہمی کا اظہار کیا اور فرمایا اساتذہ کی اپنی جگہ بندہ رکھنے کی شکایت پر تمام انچارج صاحبان کو مطلع کریں کہ ان کو بھی معطل کیا جائے گا۔ ساتھ ہی فیک انرولمنٹ کی بھی خبر لی جس پر سیکرٹری ایجوکیشن خالد نذیر وٹو نے ایک نیا شوشا چھوڑا (لغت میں لفظ شوشا موجود ہے معنی جان بوجھ کر غلط خبر یا اطلاع دینا جس سے حالات کا توازن آپ کے حق میں ہو جائے )

سیکرٹری صاحب نے فرمایا کہ ہم کیمراز انسٹال کر رہے ہیں صبح گیٹ سے ہر ٹیچر گزرے گا ریکارڈ ہوگا کہ وہ سکول آیا اور جعلی داخلہ بھی کرنا اب ناممکن ہے کیونکہ ایک کیمرہ دفتر سکول میں ہوگا کہ جو داخلہ ہو نظر آئے۔ اس کے بعد سوچا کہ آپ کو وہ لطیفہ پڑھنے کا حق حاصل ہے جو اوپر بیان ہے۔ تعلیم کو اس ملک میں اتنا ہی سنجیدہ لیا جاتا ہے جتنا بس تصاویر میں کافی دِکھے۔ اب المیے دو ہیں ایک ایک کرکے دیکھتے پہلا ستم کہ اساتذہ کے ستر ہزار پر متعرض کون ہے؟ 9 لاکھ 50 ہزار ماہانہ لینے والا اور اساتذہ نے بندے کیا رکھنے 10000 کہاں سے لینا ہاں آپ سیاست دانوں نے ڈیروں پر بندے ضرور بٹھا رکھے ہیں ستر ہزار تنخواہ پر ایسے اعتراض جیسے ٹیچر ملک کا 75 فیصد بجٹ استعمال کر رہے یہ ہے المیہ کہ استاد کی تنخواہ پر بھی اعتراض اب انہوں نے اپنے پیسوں سے کچھ لیا ہو تو پتہ چلے کہ 70000 کتنی خطیر رقم ہے۔ یہ لوگ وہ اشرف المخلوقات ہیں جن کو نہ کسی فارمیشن کا علم نہ ان کے پاس اساتذہ کے مسائل کا ڈیٹا بس سطحی معلومات لے کر حملہ سیدھا استاد پر۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ سیکرٹری صاحب نے جو تجویز دی ہے وہ بھی ناقابل عمل ہے . پنجاب کے کُل مڈل سکول 7223 ہیں پرائمری سکول 26993 ۔ ہائی سکول8081 اور ہائیر سیکنڈری سکول 848 ( ریفرنس
https://sis.pesrp.edu.pk/
تو کل ملا کر سکول ہوئے 43142 ۔ ہر سکول میں صرف 2 کیمرے لگیں اورر 2 کیمرے 15000 سے 20000 تک مالیت کے ہیں 43142 سکول میں دو دو کیمرے ہوئے 86294 جن کی مالیت 1,725,880,000 اب خود فیصلہ کریں نہ کوئی پلاننگ نہ ڈیٹا نہ مکمل صورتحال کا علم لیکن رپورٹ مفصل ہے