راولپنڈی :رنگ روڈ راولپنڈی سکینڈل:خفیہ کردارکس نے ادا کیا؟مزیدانکشافات آگئے،اطلاعات کے مطابق راولپنڈی رنگ روڈ کا معاملہ ابھی بھی مزید انکشافات کا سبب بن رہا ہے ، اس حوالے سے آزادی اخبار کے کالم نگارسید فیاض حسین گیلانی نے کچھ نئی چیزیںشیئر کرکے معاملے کونیا رنگ دے دیا ہے
اس حوالےسے فیاض حسین گیلانی کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو وہ مشکور ہیں کہ پاکستان میں صحافت کی دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو عوامی مفاد کےلیے قربانی دینا جانتے ہیں اس حوالے سے انہوں نے سنیئر صحافی مبشرلقمان کا تذرکہ کرتے ہوہئے کہا ہے کہ اگرآپ کوشش نہ کرتےتو معاملہ شاید دب جاتا
فیاض حسین گیلانی لکھتے ہیں کہ اس کا تعلق اس علاقہ سے ہے جہاں سے یہ روڈ شروع ہو رہا ہے یعنی روات کے قریب ریڈیو سٹیشن کے پاس سے۔
وہ آگے چل کرلکھتےہیں کہ یہ منصوبہ پہلی بار 2017 میں فائینل کیا گیا مطلب لوکیشن کے حساب سے۔ جس کی لوکیشن پر عمومی طور پر مقامی آبادی کو اعتراض نہ تھا۔ لیکن جب یہ حکومت آئی تو سن 2000 میں اچانک ہم نے دیکھا کہ سرکاری اہلہ کار نشان لگا رہے۔
فیاض حسین گیلانی لکھتے ہیں کہ جب اس کی تحقیق کی تو پتا چلا کہ اس کی لوکیشن کو مکمل تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ہم اس سلسلے میں درجنوں بار انتظامی و سیاسی قیادت سے ملے لیکن کسی نے کوئی بات نہ سنی۔ التہ کہ ہم وزیراعظم ہاوس کے کمپلین سیل تک پہنچ گئے۔ اس دوران ہم نے احتجاج کیا ۔ پریس تک گئے اور آخر خدا خدا کر کے وزیراعظم سے ہدایت ملی اور تحقیق ہوئی تو کچھ مذید ہو شربا حقائق سامنے آئے جو آج کل میڈیا کی ذینت ہیں۔
وہ مزید انکشافات کرتے ہیں کہ روات سے ضلع اٹک تک کی قیمتی ذمین کا کل تخمینہ ایک ارب ستاسٹھ کروڑ جبکہ اٹک کی سستی ذمین کا تین ارب سے ذیادہ کیسے ہے. دوئم حکومت پنجاب نے ذمین کی ایکوذیشن واسطے 36 ارب مختص کئے جبکہ کل پانچ ارب ان کے مطابق خرچ ہوئے تو بقایا 31 ارب کہاں گئے۔ یہ ایک معمولی سی مثال ہے۔
رنگ روڈ راولپنڈی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ پھر عین لب سڑک جی ٹی روڈ چک بیلی روڈ اڈیالہ روڈ سنگ جانی انٹر چیک گولڑہ روڈ جیسی قیمتی ذمینوں کی قیمت انہوں نے تین لاکھ ڈھائی لاکھ کنال کیسے لگائی۔ اور پہلی مرتبہ قیمت کا تعین خسرہ کی لوکیشن پر نہیں بلکہ موضع وایز کس اصول سے لگایا گیا۔
مقامی مالکان کے اعتراضات بالکل نہ سنے گئے جو لینڈ کلیکٹر سننے کا قانونی پابند تھا۔ وغیرہ وغیرہ اور بہت وغیرہ۔ یہاں تفصیل بیان کرنے واسطے درجنوں صفحے مطلوب ہیں۔ سر آپ خود صحافی ہیں دانشور ہیں بس یہ غور کریں کہ جو اکیس ارب کا گھپلہ سیدھا ذمین کی ایکوزیشن میں ہو رہا ہے کیا وہ اے سی یا ڈی سی لیول کا افسر کر سکتا ہے؟
سید فیاض حسین گیلانی لکھتے ہیں کہ اگراس معاملے کا پیچھا نہ کیا گیا تو پھراس کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہوں گے اورملک ونقصان بھی بہت زیادہ ہوگا، اس لیے ضروری ہے کہ ہرکوئی کردار اداکرے