برطانیہ کی حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے لیے نئے امیدوار کی نامزدگی کے لیے گزشتہ 24 گھنٹوں سے جاری تگ و دو بورس جانسن کی جانب سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کے اعلان پر اختتام پذیر ہوگئی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کنزرویٹو کی جانب سے سابق وزیراعظم بورس جانسن اور سابق وزیر داخلہ بھارتی نژاد رشی سونک نے حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
پارٹی رہنماؤں اور ارکان اسمبلی کی طویل مشاورت کے بعد بورس جانسن نے دوڑ سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح وقت نہیں ہے۔ آپ اس وقت تک حکومت نہیں کرسکتے جب تک پارلیمنٹ میں پارٹی کی مکمل حمایت ساتھ نہ ہو۔ بورس جانسن کے وزیراعظم کے عہدے کے لیے مقابلے سے باہر ہونے کے بعد بھارتی نژاد رشی سونک کے برطانیہ کا نیا وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں تاہم ابھی انھیں کنزویٹو سے تعلق رکھنے والی ایک اور امیدوار پینی مورڈانٹ کو بھی منانا ہے جو تاحال ان کے مدمقابل حکمراں جماعت کی واحد امیدوار ہیں۔
خاتون امیدوار پینی مورڈانٹ نے بھی 100 ارکان اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے تاہم آزاد ذرائع رشی سونک کی حمایت میں 140، بورس جانسن کی 57 اور پینی مورڈانٹ کی 24 ارکان کے حمایت کی تصدیق کرتے ہیں۔ رشی سونک کی حمایت کرنے والوں میں سابق ہوم سیکریٹری ساجد جاوید، ڈومینک راب اور سابق سیکریٹری ہیلتھ میٹ ہینکوک شامل ہیں جب کہ وزیر داخلہ پریتی پٹیل، خارجہ سکریٹری جیمز کلیورلی اور کابینہ کے وزیر ندیم زہاوی نے بورس جانسن کی حمایت کی تھی۔ بورس جانسن کی حمایت کرنے والے اب اگر پینی مورڈانٹ کی حمایت کرتے ہیں تو مقابلہ دلچسپ ہوجائے گا اور رشی سونک کو جیت کے لیے کافی محنت کرنا ہوگی البتہ یہ ارکان بورس جانسن سے رشی سونک کے کیمپ میں گئے تو بھارتی نژاد سابق برطانوی وزیر خزانہ بآسانی وزیراعظم بن جائیں گے۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛ ملک بھر میں انسدادِ پولیو مہم آج سے شروع، ڈھائی کروڑ بچوں کو قطرے پلائے جائیں
عمران خان کی نااہلی کے خلاف درخواست پر سماعت آج ہوگی
وزیراعظم شہبازشریف آج پاکستان سے سعودی عرب چلے جائیں گے
پاکستانی ائیرلائنز کی یورپ میں بحالی؛ یورپی کمیشن نے پی سی اے اے حکام کو تکنیکی میٹنگ کے لیے مدعو کرلیا
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بورس جانسن نے دستبردار ہونے کا فیصلہ اس لیے بھی کیا ہے کہ اب بھی پارٹی گیٹ کی تلوار ان کے سر پر لٹکی ہوئی ہے اور کنزرویٹو فی الحال کوئی اور تنازع مول لینا نہیں چاہتے۔ دوسری جانب حزب اختلاف یعنی لیبر پارٹی نے وزیراعظم کے عہدے کے انتخاب کے لیے حکمراں جماعت کے تین امیدواروں کے میدان میں آنے اور اپنے ہی ارکان کی حمایت کے متضاد دعوؤں کو ’’ ایک مضحکہ خیز اور افراتفری کا سرکس‘‘ قرار دیا۔ واضح رہے کہ عوامی سروے میں بھی اکثریت کی رائے رشی سونک کے حق میں ہے جب کہ 27 فیصد بورس جانسن کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔