ساس! ماں، بہو اور بیٹی بھی . تحریر : انجینیئر مدثرحسین

ساس بھی ماں اور بہو بھی بیٹی ہے
اس سب کی وجہ کیا ہے؟
ساس یا بہو کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
کیا ازدواجی زندگی صرف جنسی سکون کا نام ہے؟
مرد شادی کیوں کرتا ہے؟
عموماً ہنستا بستا گھر کیوں ٹوٹتا ہے؟
اس تحریر میں ان سوالات سے متعلق گفتگو کی جائے گی. تاکہ سمجھا جائے اور اپنے اپنے کردار سے منسلک کمی کو دور کیا جائے.
سب سے پہلی بات یہ کہ آخر فی زمانہ جن رشتوں سے ہمیں روشناس کرایا جاتا ہے ہمارے بزرگوں میں انکی کیا روایات ملتی ہیں جنکی بدولت ایک کامیاب زندگی کی مثال ہمیں ماضی میں ملتی ہے اور شریعت اس بارے کیا کہتی ہے؟
کچھ چیزیں مقامی روایات سے ملتی ہیں اور علاقائی رسم و رواج کے مطابق چلتی ہیں. شریعت سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوتا. جیسے پکارے جانے والے رشتے مثلاً ساس، بہو، دیور، بھابی، نند، جیٹھ، سالا یا سالی وغیرہ ایسے رشتے ہیں جن کا شریعت میں تزکرہ ان ناموں سے نہیں ملتا ہاں! جہاں پردے کی آیات اور احکام درج ہیں قرآن و حدیث میں وہاں ان رشتوں کی پہچان تو کرائی گئی لیکن رشتے کی اصل حیثیت کو برقرار رکھا گیا ہے. اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں سورۃ النور کی آیت نبر 31 میں ارشاد فرمایا
اور مسلمان عورتوں کو حکم دے دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ ظاہر کریں مگر جتنا (بدن کا حصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے والد یا شوہروں کے والد یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائی کے بیٹوں یا اپنے بہن کے بیٹوں یا اپنی (مسلمان) عورتوں یا اپنی کنیزوں پر جو انکی ملکیت ہوں یا مردوں میں سے وہ نوکر جو شہوت والے نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر اپنے پاؤں اسلئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں نے چھپا رکھی ہے.

معلوم ہوا کہ رشتوں میں سسر، بھتیجے، بھانجے کی پہچان انکے اصلی حیثیت شوہر کا باپ، بھائی کا بیٹا اور بہن کے بیٹے سے کرائی گئی.
مطلب سسر کی حیثیت باپ کی اور بھانجوں اور بھتیجوں کی حیثیت بیٹوں کی ہوئی.
اسی طرح سسر کی حیثیت باپ کی ہونے سے ساس کی حیثیت ماں کی ہوئی. اب ہم نے جو رشتوں کی پہچان سمجھنے کیلیے بنا رکھی ہے وہ سمجھنے کی حد تک ہونی چاہیے ناکہ رشتے کا اصل مقام اور حیثیت ہی بدل دی جائے.

یاد رکھئیے ساس بھی ماں ہے اسکو ماں کا درجہ دیجئے اور ماں کی طرح خدمت کیجئے. آخر کیوں اس مقدس رشتے کو بگاڑ کر اس کی حیثیت ختم کی گئی؟ آج کی ڈرامہ انڈسٹری نے جس چالبازی سے اس رشتے کی حرمت کا تقدس پامال کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی. ہر ڈرامہ ساس بہو کی لڑائی اور تزلیل کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے. حالانکہ کی شریعت میں اس رشتے کا وجود ہی نہیں. اور اس اصول کے پیش نظر بہو بھی آپکے ماں ہونے کے ناطے بیٹی ہے جومقام آپکے گھر آپکی اپنی پیدا کی گئی بیٹی کو حاصل اپنے گھر اپنے بیٹے کے لیے لائی گئی دلہن کو بھی اس مقام اور درجہ سے نوازیں اور اسی حیثیت سے اس سے تعلق رکھیں. اصول ہر گھر کے الگ ہوتے روایات الگ ہوتی ہیں. اس بیٹی کو ان اصولوں سے اپنی پیدا کی گئی بیٹی کی طرح ترتیب کر کے روشناس کرائیں اور لعن طعن اور غلط القابات سے اجتناب کریں کیونک یہی وہ حقیقی بیٹی ہے جس نے بقیہ زندگی آپکی خدمت کرنی ہے اور اس گھر کو آشیانہ بنانا ہے. دلہن کے عہدے پر فائز ہوتے ہی اپنی انا کو فروغ دینے والی بہنوں سے بھی گزارش ہے کہ آپ کے شوہر کی ماں ہی آپکےلیے ماں کا درجہ رکھتی ہے شادی کے بعد اسی نے آپکی اگلی زندگی کے لیے آپ کو اپنے خاندان کے اصول و ضوابط سے نا صرف روشناس کرانا ہوتا ہے تربیت کرنی ہوتی ہے بلکہ آپ کو اپنے بیٹے کی طبیعت اور مزاج سے بھی روشناس کراناہوتا ہے. ہر رشتہ جب قدر اور عزت کا دامن تھامے چلتا ہے تو ہی گھر سکون کا گہوارہ بنتا ہے. یاد رکھیں ماں اگر کچھ کہ بھی دے تو بھلائی کیلئے ہی کہتی ہے اسلیے اسے ساس بنا کر تلخیوں میں بدلنے سے گریز کرنا چاہیے. چند دنوں میں مزاج ملنے لگتے اور ہر طرف خوشیاں دکھنے لگتی ہیں. یہاں ان ماؤں سے بھی گزارش ہے جو فی زمانہ بیٹی کو بیاہتے وقت تلقین کرتے نظر آتی ہیں کہ شوہر کو ہاتھ میں کرو بس. ایک سوال ان سے کہ کیا جس ماں کی محبت اور شفقت نے ایک نومولود کو 25 سال اپنے حصار میں رکھا ہر طرح کی برائی سے بچا کر آپکی بیٹی کو سونپ دیا کیا اب اس ماں باپ کا حق ختم ہو گیا؟ آپکی بیٹی چکنی چپٹی اداؤں سے اس کا وہ حصار کمزور تو کر سکتی ہے لیکن جب خمار اترتا ہے تو پھر وہی دلہن اور اسکی چالبازی اسی کے لیے تباہی کا سبب بنتی ہے لہٰذا اپنی بیٹی کو گھر بنانے اور ماں باپ کی خدمت کرنے شوہر کے لیے سکون بننے کی ترغیب دیں شوہر کو وقتی طور پٹانے کی نہیں. کیونکہ جس پودے کی بنیاد اچھی ہو وہی مضبوط بھی ہوتا اور پھل بھی اچھا دیتا ہے.

شوہر شادی کیوں کرتا ہے کیا اس کو صرف جنسی تسکین چاہیے؟ جوکہ فی زمانہ اسے معاشرے سے بیوی کے اخراجات سے کئی گنا کم خرچ میں مل سکتی ہے. وہ زہنی سکون کے لیے کسی کو اپنی عزت بناتا اور اس عزت کو سجاتا سنوارتا اس کے نخرے اٹھاتا اس کیلیے اپنا تن من قربان کر کے اس
کی خوشیوں پر خرچ کرتا ہے کیوں؟

تاکہ وہ جب ہر طرح کا ظلم و ستم اپنی زات پر برداشت کر کے گھر لوٹے تو اس کا مسکرا کر گھر استقبال کیا جائے اس کی آو بھگت کی جائے. اسے زہنی سکون چاہیے. یاد رکھیں جو خواتین معاشرے میں لوگوں کی غلط نظروں اور القاب سے حراساں ہوتی ہیں ان سے پوچھئے مرد انہی مشقتوں سے اپنی بیوی اپنی عزت کو بچاتا ہے اور اس کے ناز و نرخوں کیلیے سبب سختیاں سب کچھ اپنی زات ہر برداشت کرتا کبھی موسم کی سختیاں تو کبھی پردیس کے جھمیلے سب صرف اپنی بیوی کے لیے تو اس کو زہنی سکون ملنا اس کا حق ہے. اگر وہ آپ ساس بہو کی لڑائی میں الجھے گا تو اس کو اس رشتے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا. یہ سب چیزیں ایک ہنستے بستے گھر اور ازدواجی زندگی کے کامیاب پہلو ہیں. زہنی سکون ہی نا ہوا تو گھر کا آشیانہ ٹوٹ جاتا ہے. اپنی انا کی بھینٹ اپنے رشتوں کو چڑھنے سے بچائیے. رشتوں کی اصل حیثیت کو سمجھیں آپس میں درگزر والا معاملہ رکھیں. ساس بہو نہیں ماں بیٹی بنیں. غلطی ہو جائے ماں بن کر سمجھائیں اور سکھائیں. اپنی غلطی کو سمجھیں مانیں اسے درست کریں اور اچھی بیٹی کی طرح مستقبل میں غلطی سے اجتناب کریں. گھر کو کھنڈر نہیں جنت بنائیں

@EngrMuddsairH

Comments are closed.