ایمان کے دو حصے جنکا نام صبر اور شکر ہے۔ اور یہ دونوں ہی اللہ تعالٰی کو نہایت پسند ہیں۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
أُوْلَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَO
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور اس عطا میں سے جو ہم نے انہیں بخشی خرچ کرتے ہیں۔‘‘
القصص، 28 : 54
عربی لغت میں صبر کے لفظی معنی ہیں برداشت کرنا اور دوسری طرف شکر کے معنی ہیں اظہارِ احسان مندی۔
مسلمان کی پوری زندگی صبر اور شکر کے دائرے میں آتی ہے
شکر اخلاق، اعمال اور عبادات کا بنیادی جزو ہے۔ شکر کے بغیر تمام اعمال و عبادات بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں شکر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
کی
مَّا يَفْعَلُ اللّهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَكَانَ اللّهُ شَاكِرًا عَلِيمًاO
’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ، اور اللہ (ہر حق کا) قدر شناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہےo‘‘
النساء، 4 : 147
ہمارے پیارے نبی اللہ پاک کا شکر ادا کیا کرتے تھے دن رات اللہ کا شکر ادا کرتے تھے
چرند پرند بھی اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں انسان کو چاہیے کہ وہ بھی ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرئے اپنی ہر سانس پہ اللہ کا احسان مند ہو الحمدللہ ہم سانس لیتے ہیں چلتے پھرتے ہیں ہمارے ہاتھ پاوں سلامت ہیں ہم دیکھ سکتے ہیں اپنے رب کی نعمتوں کا احسان مند ہونا ضروری ہے
شکر کے متعلق ایک حدیث ہے کہ
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو کثرت سے قیام فرماتے اور عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے۔ کثرتِ قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پاؤں سوج جاتے۔ آپ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم ! آپ تو اللہ تعالیٰ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا.
’’کہا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔‘‘
جب آقا دو جہان کے شکر کا یہ عالم تھا جنکے لیے دنیا بنائی گئ تو ہمیں تو ہر حال میں رب کے آگے جھکنا چاہیے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آزمائش جتنی سخت ہوتی ہے اسکا بدلہ بھی اتنا ہی بڑا ملتا ہے اللہ پاک جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اسے آزمائش میں ڈال دیتے ہیں پھر جب وہ اس آزمائش پہ راضی رہا (یعنی صبر سے کام لیا) تو اللہ پاک بھی اس سے راضی ہوجاتے ہیں اور جو اس پر ناراض ہوا تو اللہ پاک بھی اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔
(سنن الترمذی 2396)
ہماری روزمرہ کی زندگی میں یہ دونوں چیزیں آجائیں تو زندگی گزارنا بھی آسان ہے گھریلو معاملات بھی آسان ہو جائیں سادہ سی بات ہے کہ اگر گھر میں لڑائی جھگڑے کا ماحول ہے آپ 2 منٹ صبر سے کام لیں تو آدھا مسلہ تو اسی طرح ختم ہوجاتا ہے
اسی طرح گھریلو خواتین کم خرچے میں گھر چلائیں اور اسی پر شکر ادا کریں تو بھی زندگی کے آدھے مسائل کا خاتمہ ہوجائے یہاں یہ مثال دینا اس لیے بھی ضروری تھا کہ آج کل معاشرے میں یہی دو مسلے سب سے زیادہ ہیں برداشت کی کمی کتنے گھر اجاڑ چکی ہے اور تنگدستی کتنے ہی مسائل کو جنم دیتی ہے لہذا ہم سب اللہ اور اسکے رسول کے بتائے ہوئے رستے پہ چلیں تو زندگی بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔