سبز موتیا . تحریر : سید منعم فاروق

0
51

عام طور پہ آنکھ کے دو طرح کے امراض ایسے ہوتے ہیں جو ہرخاص و عام میں کافی مقبول ہیں، ان میں ایک سفید موتیا جبکہ دوسرا کالاموتیا کہلاتا ہے، ان بیماریوں میں آنکھ کے آگے ایک جالا سا بن جاتا ہے جس کی وجہ سے مریض کو دھندلا دکھائی دیتا ہے، ان امراض میں سائنسی ترقی کی وجہ سے کافی حد علاج ممکن ہے اور لوگ معمولی سےآپریشن سے بالکل ٹھیک ہو جاتے ہیں ، راقم نے تحقیق کی بنیاد پر ایک نئے موتیئے کی تشخیص کی ہے جس کو "سبز موتیا” کا نام دیا ہے، اس بیماری میں سبز رنگ مملکت پاکستان جبکہ موتیا ایسے جالے کو ظاہر کرتا ہے جو پاکستان میں ہونے والی ہر مثبت چیز کو دیکھ کر کچھ لوگوں کی آنکھ میں آ جاتا ہے اور انکو تکلیف ہونے کے ساتھ ساتھ انکی بینائی بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ بیماری ان لوگوں پہ ذیادہ جلدی حملہ آور ہوتی ہے جن کی نظریہ پاکستان سےلے کر پاکستان کے معماروں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کے بارے معلومات بھی ناکافی ہوتی ہیں۔ لیکن ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تمام معلومات رکھتے، سمجھتے، بوجھتے ہوئے بھی سبز موتیا کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ انکی آنکھوں پر کچھ نوٹوں کی پٹی باندھ دی جاتی ہے، اس کالم میں ہم سبز موتیا کے شکار مریضوں کی اقسام اور انکے علاج کے بارے میں بتائیں گے۔

سب سے پہلے بات کی جائےکہ سبز موتیا کے شکار کون کون سے لوگ ہیں تو ان میںسب سے پہلا نام لنڈے کے دانشوڑ، دیسی لبرل، کچھ صحافی،اورکچھ سیاستدان بھی آتے ہیں، بیوروکریسی اور حکومتوں کے ساتھ جڑے ہوئے کچھ لوگ بھی اس مرض کا شکار نظر آتے ہیں، سبز موتیا کے مریضوں کوپہچاننے کا سب سے اہم طریقہ یہی ہوتا ہے کہ ان کے سامنے پاکستان کے بارے میں مثبت بات کی جائے، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی بات کی جائے یا پاکستان کے اداروں کی تعریف کی جائے تو ان کے پیٹ میں اسی وقت مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں ، ان کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں ۔ آج کل کے دور کی مثال لے لیں، اگر آپ کو ان مریضوں میں سے کسی کی پہچان نہیں ہو رہی تو اس کے سامنے پاکستانی افواج یا قومی سلامتی کے اداروں، چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری، بھارت اور دیگر ممالک کی پاکستان کے خلاف سازشیں یا پاکستان کو لوٹنے والوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر کے دیکھیں، فورا جس شخص کے تاثرات، جذبات، حرکات و سکنات اور علمیات بدلتا دیکھیں تو فورا سمجھ جائیں کہ یہ شخص بھی حالیہ وباءسبز موتیا کا شکار ہے۔

قارئین ہم نے مرض کی بھی بات کر لیاور مریض کی تشخیص کی بھی بات کر لی، اب اگر بات کی جائے ایسے مریضوں کے علاج کی تو اس کے لیئے کیا کیا جائے؟ تو سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ اس مرض کا ایک ہی حل ہے وہ ہے سچ، اور اس مرض سے بچنے کا ایک ہی پرہیز ہے اور وہ ہے جھوٹ اور جھوٹے پراپیگنڈے سے بچنا۔ اگر آپ کو اپنی قوم ، اداروں، اور بین الاقوامی سازشوں کے بارے میں سچائی کا علم ہے اورآپ دشمن کے اور اسکے آلہ کاروں کے جھوٹے پراپیگنڈے کا شکار نہیں ہو رہے تو مبارک ہو، آپ کو یہ مرض نہیں ہو سکتا۔ لیکن ان قدرتی عوامل کے علاوہ ایک اور بہت بڑی عادت ہے جو آپ کو اس مرض کا شکار کر سکتی ہے اور وہ ہے پیسہ کی بھوک، لالچ اور ہوس اگر کسی انسان کو ان معاشرتی بیماریوں میں سے کسی ایک کی بھی لت لگ چکی ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ بھی سبز موتیے کا شکار ہو جائے ۔ اور راقم جب یہ الفاظ تحریر کر رہا ہے تو اسکے ذہن میں اور وہ یہ امید کرتا ہے کہ پڑھنے والوں کے اذہان میں بھی وہ تمام چہرے گردش کر رہے ہونگے جو سبز موتیئے کا شکار ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر سچے پاکستانی کو اس مرض کے قریب بھی نہ جانے کی توفیق عطا فرمائیں اور اس مرض کے شکار مریضوں کو شفائے کاملہ عطا فرمائیں تاکہ پاکستان دشمن کی سازشوں سے پاک ہو کر ایک پھلتا پھولتا، ترقی کرتا اسلامی مملکت بن جائے ۔

لکھاری: سید منعم فاروق
شہر : اسلام آباد
تعارف: سید منعم فاروق کا تعلق اسلام آباد سے ہے، گزشتہ کچھ سالوں سے مختلف اداروں کے ساتھ فری لانسر کے طور پر کام کر رہے ہیں، ڈیجیٹل میڈیا، کرنٹ افیئرز اور کھیلوں کے موضوعات پر ذیادہ لکھتے ہیں۔ ان سے رابطہ کے لیئے انکا ٹویٹر اکاونٹ: https://twitter.com/Syedmunimpk

Introduction: Syed Munim Farooq is Islamabad based freelance Journalist and columnist; He has been writing for different forums since 2012. His major areas of interest are Current Affairs, Digital Marketing, Web media and Journalistic affairs. He can be reached at Twitter: https://twitter.com/Syedmunimpk

Leave a reply