سپریم کورٹ، صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس ،سپریم کورٹ نے 2 اپریل کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا
حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا ریگولیشن سے متعلق درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی،سوشل میڈیا ریگولیشن کے درخواست گزار آئندہ سماعت پر پیش ہوں،بتایا گیا کہ صحافی مطیع اللہ جان سے متعلق آر آئی یو جے نے رپورٹ تیار کی،مطیع اللہ جان سے متعلق رپورٹ کی کاپی فریقین کو فراہم کی جائے،کیس کی آئندہ سماعت مئی کے دوسرے ہفتے میں ہوگی،
میری سپریم کورٹ تعیناتی کیوں نہ کی گئی،پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا خط
8 ججز کو پاؤڈر والے دھمکی آمیز خط،شیر افضل مروت نے الزام ن لیگ پر لگا دیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دھمکی آمیز خطوط بھیجنے کا مقدمہ درج
اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط کے بعد نئی صورت حال سامنے آگئی
عمران خان کو رہا، عوامی مینڈیٹ کی قدر کی جائے،عارف علوی کا وکلا کنونشن سے خطاب
جماعت اسلامی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا۔
ججز کا خط، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر
ہائیکورٹ کے 6 ججز نے جو بہادری دکھائی ہیں یہ قوم کے ہیرو ہیں،اسد قیصر
لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو بھی مشکوک خط موصول
پریس ایسوسی ایشن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت میں کہا کہ کیس میں کچھ بھی ارجنٹ نہیں ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ بیرسٹر حیدر وحید کہاں ہیں؟ وکیل نے کہا کہ وہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ مگر وہ عدالتی کارروائی کے لیے نہیں آئے، کیا ان کی پٹیشن آزادی اظہار کو یقینی بناتی یا مزید روکتی؟ ان کے کیس میں درخواست گزار کون تھے؟ 2022 سے یہ درخواست کس بنیاد پر دائر تھی؟ کیا ان کامقصد پورا ہو گیا ہے؟ درخواست گزاروں میں کوئی چکوال کا تھا کوئی اسلام آباد کا، کون سا مشترکہ مفاد تھا جو ان درخواستگزاروں کو ساتھ لایا تھا؟ میڈیا میں بھی بڑی منتخب رپورٹنگ ہوتی ہے، اب یہ رپورٹ نہیں ہو گا کہ یہ 6 درخواستگزار غائب ہو گئے، اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ ہم اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے، کیا حیدر وحید والی درخواست کا کوئی پٹیشنر عدالت میں ہے؟
بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ کیا اس طرح کی درخواست عدالت کا غلط استعمال نہیں ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بالکل یہ عمل کا غلط استعمال ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ایسی درخواستیں عدلیہ کی آزادی یقینی بناتی ہیں یا اسے کم کرتی ہیں؟ اس پٹیشن کے تمام درخواستگزاروں کو نوٹس کر کے طلب کیوں نہ کریں؟اٹارنی جنرل نے بھی درخواستگزاروں کو نوٹس جاری کرنے کی حمایت کردی،بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ عوامی مفاد کی درخواست واپس نہیں ہو سکتی، آرمی چیف کی توسیع سے متعلق ریاض حنیف راہی والی درخواست بھی واپس نہیں لینے دی گئی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کہیں آپ کی ان لوگوں سے عدالت کے باہر ہی سیٹلمنٹ تو نہیں ہوگئی ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہم ایک صحافتی ادارہ ہیں ایسی سیٹلمنٹ کے وسائل نہیں ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں پیسے ہی ہوں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہا گیا ہو آئندہ میری خبر اچھی چھاپ دینا
سپریم کورٹ نے میڈیا ریگولیشن والی پٹیشن کے درخواست گزاروں کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے نوٹس جاری کر دیے،