سلمی لغاری المعروف امر سندھو کا یوم پیدائش

آغا نیاز مگسی
0
44
amar sindhu

پھندوں میں لٹکتی ہوئی گردنوں سے
میں خوابوں کا مطلب پوچھتی ہوں
لغاری بلوچ قبیلے سے تعلق رکھنے والی نامور ترقی پسند ادیبہ_ مصنفہ، شاعرہ ، ماہر تعلیم اور انسانی حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے فعال کردار ادا کرنے والی سلمی لغاری المعروف امر سندھو 28 اگست 1968 میں میرپور خاص کے ایک نواحی گاؤں دودو لغاری میں حسین بخش لغاری کے گھر میں پیدا ہوئیں ۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم میر پور خاص میں حاصل کرنے کے بعد سندھ یونیورسٹی جام شورو سے ڈبل ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد محکمہ تعلیم سندھ میں لیکچرر مقرر ہوئیں ۔ امر سندھو اس وقت سندھ یونیورسٹی جام شورو میں شعبہ فلسفہ کی پروفیسر اور چیئرپرسن ہیں ۔

وہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی فعال کردار ادا کرتی رہی ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے ساتھ مل کر 2008 ویمن ایکشن فورم کا قیام عمل میں لایا ۔ ان کی ایک سندھی کتاب” اوجاگیل اکھین جا سپنا” (جاگتی آنکھوں کے خواب)شائع ہو کر بہت پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ 10 جولائی 2012 میں امر سندھو پر حملہ کیا گیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئی تھیں وہ اس وقت ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے ساتھ سفر کر رہی تھیں ۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
انٹربینک میں ڈالر 302 روپے کا ہوگیا
بجلی بحران کے فوری حل کیلیے نگران وزیراعظم پاکستان کو پانج نکاتی مشورہ
نوازشریف ہی عوام کومہنگائی، بجلی کے بلوں میں اضافے سے بچائیں گے،مریم نواز
امر سندھو قومی و بین الاقوامی کانفرنسز میں بھی شرکت کر کے مقالے پڑھتی اور پیش کرتی رہتی ہیں ۔

امر سندھو کی دو نظمیں قارئین کی نذر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں۔۔!!
اپنے دیس کی تنہائیوں کو
اپنا ساتھ پیش کرنا چاہتی ہوں
مگر، گیت جو بھگت کنوررام کے گلے میں ذبح کیا گیا
میرے جسم کا عنوان
بن نہیں سکتا۔
اس کے سینے پر
سر رکھ کر میں نے رونا چاہا
لیکن اماں نے بتایا کہ
میرے آنسو اور آہوں سے
رخصتی کا گیت لکھ رہی ہیں
اور ۔۔۔۔۔ پھر
اپنے حصے میں آئے،
تمام سوالات
میں نے اپنے جسم میں بو دیے۔
سمندر کے کنارے
جوانی جو گیت گنگناتی ہے
میں نے،
وہ گیت گانے کی کوشش کی تو
الفاظ مٹی،
اور مٹی میری موت بن گئی
اس کی ہر سسکی سے
میں نے اک نعرے کو جنم دیا ہے
نعرہ۔۔۔۔۔ جس کے مستقبل میں سینکڑوں کائناتیں اور
حال میں گندھک کی گولیاں اور
پھانسی کے پھندے لٹک رہے ہیں
پھندوں میں لٹکتی ہوئی گردنوں سے
میں خوابوں کا مطلب پوچھتی ہوں
جن کے بیٹے!
گندھک کی گولیاں نگل جائیں
اس گاؤں کے باسیوں کے بجائے
میں نے ان دیواروں کو
(جو گولیوں کے لیے ڈھال نہ بن سکیں)
بھی روتے ہوئے دیکھا ہے
’’ان کے خون سے
روٹیاں کب پھوٹیں گی؟‘‘
میرے خواب باربار مجھ سے پوچھتے ہیں۔

(مزاحمتی شاعری )

مزاحمتی شاعری میں جاگنے کے بعد
بغاوت۔۔۔۔!
میری رگوں میں دوڑتی
میری آنکھوں میں بھر جاتی ہے
میری بھیچی ہوئی مٹھیوں میں سانس لیتی
میرے ہونٹوں پر جاگتی ہے
بغاوتوں سے بوسہ
اور راستوں سے چھالے لے کر
میرے ہونٹ اور پیر
اجنبی زبان میں لکھی ہوئی تاریخ کی کتاب کے
خالی اوراق میں، بغیر عنوان کے ہی
پرنٹ ہوجاتے ہیں
میری آنے والی نسل، ان پرنٹس سے
نعروں کو جنم دے گی۔۔۔؟
یا جاڑوں کی سرد راتوں میں
یہ پرنٹ جلاکر اپنے ہاتھ سینکے گی
مجھے کیا معلوم؟

Leave a reply