سموگ۔۔۔میں حفاظتی تدابیر .تحریر:ڈاکٹر سبیل اکرام

0
244
smog04

اللہ تعالیٰ نے جس کائنات کی تخلیق کی وہ بے حد وسیع ، خوبصورت ، حسین وجمیل ، صفاف وشفاف اور اجلی ہے ۔لیکن انسان اپنی نت نئی ایجادات اور مصنوعات کے مرہون منت اس کائنات کو آلودہ اور تباہ کررہا ہے۔ یہ آلودگی درحقیقت زہر ہے جو انسانی صحت اور زندگی کو برباد کررہی ہے ۔ اس وقت جو چیزیں کائنات کو آلودہ اور انسانی صحت کو تباہ کررہی ہیں ان میں سر فہرست۔۔۔۔ ”’ سموگ “‘ ہے ۔ سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی ہے جو انسانی آنکھ ،دماغ اور جسم کو تاحد نگاہ متاثر کرتی ہے، سموگ کو زمینی ” اوزون “ بھی کہا جاتا ہے ،یہ ایک ایسی بھاری اور سرمئی دھند کی تہہ کی مانند ہو تی ہے جو ہوا میں جم جاتی ہے۔سموگ میں موجود دھوئیں اور دھند کے اس مرکب یا آمیزے میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین جیسے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر فضا میں موجود ہوائی آلودگی اور بخارات کا سورج کی روشنی میں دھند کے ساتھ ملنا سموگ کی وجہ بنتا ہے۔
جو چیزں سموگ کے بننے اور پھیلنے پھولنے کا سبب بنتی ہیں وہ ہے بارشوں میں کمی، فضلوں کو جلایا جانا، کارخانوں گاڑیوں کا دھواں ،درختوں کا بے تحاشا کٹاﺅ اور قدرتی ماحول میں بگاڑ پیدا کرنا ۔۔۔۔یہ سموگ کے پھیلنے کی بنیادی وجوہات ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں دھند اور سموگ میں فرق معلوم ہونا چاہئے کیونکہ سموگ کی موجودگی اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں جاننے کے بعد ہی ہم اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔دھند اور سموگ میں بظاہر کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا لیکن دھند اور سموگ کی نوعیتیں ، کیفتیں مختلف ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ہوا میں موجود بخارات کم درجہ حرارت کی وجہ سے کثیف ہو جاتے ہیں تو یہ ماحول میں سفیدی مائل ایک موٹی تہہ بنا دیتے ہیں جسے دھند کہا جاتا ہے، اسی دھند میں دھواں اور مختلف زہریلے کیمیائی مادے شامل ہو جائیں تو یہ دھند مزید گہری اور کثیف ہو جاتی ہے جسے سموگ کہاجاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ افراد فضائی آلودگی کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، دراصل سموگ میں بنیادی طور پر ایک زہریلا مادہ موجود ہوتا ہے جو پرٹیکولیٹ مادہ 2.5 کہلاتا ہے اور یہ پی ایم 2.5 ایک انسانی بال سے تقریباً چار گنا باریک ہوتا ہے یہ مادہ ہوا کے ذریعے انسانی پھیپھڑوں میں بآسانی داخل ہو کر پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں کیساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے کینسر تک کا باعث بن سکتا ہے۔
سموگ سے بچاﺅ کے دو طریقے ہیں ایک طریقہ وہ ہے جو ہر انسان اپنے طور پر اختیار کرسکتا ہے ۔ یعنی مناسب حفاظتی لباس پہنایا جائے ۔ اس کا مطلب ہے کہ جب آپ باہر جائیں تو ماسک پہنیں یا دوسرے آلات استعمال کریں جو آپکو نقصان دہ ذرات سے پھیلنے والی آلودگی سے بچاتے ہیں۔یہ ضروری ہے کہ جس قدر ممکن ہو سموگ کے اثرات سے بچا جائے تاہم اگر آپ کی رہائش زیادہ آلودگی والے علاقے میں ہے تو پھر ضروری ہے کہ اپنی صحت کی حفاظت کیلئے دوسرے طریقے بھی اختیار کریں ۔یعنی دل کے مریض گھر وں میں رہ کر اسٹیم لیں، ٹھنڈے مشروبات اور کھانے پینے کی کھٹی ترش اشیاسے پرہیز کریں ، اگر کسی کو دل یا پھیپھڑوں کا دائمی مسئلہ ہے، جیسے دمہ یا اس جیسی کوئی دیگر بیماری ہے تو پھر ڈاکٹر سے اپنے آ پ کو فضائی آلودگی سے بچانے کے طریقوں کے بارے میں مشورہ کریں۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر آپ کو سانس لینے میں مدد کے لیے کوئی دوا تجویز کر سکتا ہے۔

اگر کسی کے سینے میں جکڑن، آنکھوں میں جلن، یا کھانسی کی علامات ہیں تو ڈاکٹر سے ملیں، بچوں کو آلودگی کی بلند سطح کے اثرات بڑوں کی نسبت زیادہ محسوس ہوتے ہیںاس لئے بچوں کے لئے حفاظتی اقدامات کرنا بے حد ضروری ہے ۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ سموگ سے بچاﺅ کیلئے اپنے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں کے شیشے بند رکھیں، جب تک آلودہ دھوئیں والا موسم ختم نہیں ہو جاتا تب تک کھلی فضا میں جانے سے گریز کریں ، خاص کر سانس کی تکلیف میں مبتلا افراد ایسے موسم میں ہرگز باہر نہ نکلیں، ایسے موسم میں جسمانی ورزش کرنے سے بھی دریغ کیا جائے اور اپنی گاڑیوں کو کھڑے رکھنے کی پوزیشن کے دوران انجن کو چلتا مت چھوڑیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سموگ سے بچنے کے لئے جہاں حکومت کو آلودگی کے خاتمہ میں سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہاں ماحول دوست ایندھن کا استعمال نہایت ضروری ہو چکا ہے۔ اس بارے میں ضروری ہے کہ حکومت دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بند کرے جو لوگ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں چلاتے ہیں ان کے خلاف سخت تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے جبکہ ہم سے ہر شخص خود بھی ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی مرمت کروائے تاکہ فضا میں آلودگی نہ پھیلے ۔نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں پنجاب اور خاص کر لاہور میں سموگ کی وبا عام ہوجاتی ہے ۔ حکومت اس سے نمٹنے کے کےلئے ہر سال پنجاب بھر میں سموگ ایمرجنسی نافذ کردیتی ہے ایک ماہ کے لئے تمام سرکاری و نجی سکولوں میں طلبا و طالبات کیلئے ماسک لازمی قراردے دیا جاتا ہے یا پھر کچھ دنوں کےلئے سکولوں کالجوں میں چھٹیاں دے دی جاتی ہیں ۔کچھ دیگر حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر بھی توجہ دلائی جاتی ہے۔

چین کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار سے امریکہ خائف کیوں؟ تحریر:ڈاکٹر سبیل اکرام

بجلی کے بلوں کی وجہ سے گھر گھر لڑائیاں ہورہی ہیں،ڈاکٹر سبیل اکرام

نگران حکومت سے عوام کی توقعات ، تحریر:ڈاکٹر سبیل اکرام

سیاستدان سیاست پر ملک کے مفاد کو ترجیح دیں، ڈاکٹر سبیل اکرام

پاکستان کا زرعی ومعاشی مستقبل نئے ڈیموں کی تعمیر سے وابستہ ہے ،ڈاکٹر سبیل اکرام

حکومت بھارت کی آبی جارحیت کا فوری سدباب کرے،ڈاکٹر سبیل اکرام

مراعات میں شاہانہ اضافے کے بل کی منظوری افسوسناک ہے،سبیل اکرام

استقامت کو تیری سلام عافیہ ،تحریر:ڈاکٹر سبیل اکرام

سیاستدان ملک کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں ۔ ڈاکٹر سبیل اکرام

قرآن مجید کا پڑھنا عبادت اوراس پر عمل کرنا باعث نجات ہے،ڈاکٹر سبیل اکرام

اصل بات یہ ہے کہ ہر سال نومبر اور دسمبر کے مہینے میں سموگ سے بچاﺅ کےلئے جتنے بھی اقدامات کئے جاتے ہیں یہ سب عارضی اقدامات ہیں اصل بات یہ ہے کہ لاہور جو پاکستان کا دل ہے ، پاکستان کا دوسرا بڑا صنعتی ، تجارتی اور صنعتی مرکز ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا دارالحکومت ہے اس شہر میں ٹریفک بے ہنگم ہوچکی ہے ، لاہور کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، لاہور جو کبھی باغوں کا شہر تھا اب یہ شہر دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے ۔ ہریالی کا فقدان ہے ، آبادی کے تناسب سے درخت نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ گندگی پھیلانے والوں کے خلاف کوئی کروائی نہیں کی جاتی ۔اگر چہ پنجاب حکومت ہر سال لاہور کو سموگ زدہ شہر قراردیتی ہے اس مناسبت سے وقتی طور پر کچھ اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن اقدامات موقع محل اور ضروریات کی نسبت قطعی ناکافی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اگلے سال سموگ پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے ۔ اب حالت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سموگ کی شدت بڑھتی جارہی ہے لہذا اب ضروری ہوچکا ہے کہ انتظامیہ لاہور کی آبادی کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کےلئے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات اٹھائے ۔ مثلاََ یہ ہے کہ بے ہنگم آبادی کو کنٹرول کیا جائے ، ٹریفک کا نظام بہتر بنایا جائے ، شجر کاری میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے ۔یہ وہ اقدامات ہیں جن پر عمل کرکے سموگ جیسی آفت پر قابو پایا جاسکتا ہے اور لاہور کو بھی بڑی تباہی سے بچایا جاسکتا ہے ۔ سموگ کا تدارک اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ چھوٹے بچوں کی صحت کو بہت زیادہ متاثر کرتا ہے جبکہ بچے ہی کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔۔۔۔بچے محفوظ ہوں گے تو ہم بھی بحیثیت قوم محفوظ رہیں گے ۔
subiyal

Leave a reply