صنعت اور کتابت میں فرق تحریر : انجینیئر مدثر حسین

آج کا موضوع پاکستان میں موجود نظام تعلیم کے ایک مخصوص حصہ سے متعلق ہے. جس پر توجہ وقت کی اشد ضرورت ہے. پاکستان میں ہر شعبہ زندگی کے لیے نصاب تو موجود ہے لیکن اس ہر ریسرچ کے مواقع اور ورکشاپس کی شدید قلت ہے. جس سے آنے والی پڑھی لکھی قوم انڈسٹری میں جاتے ہی اپنا مقام حاصل نہیں کر پاتی. ایک طویل عرصہ اور تجربہ اس زمدہ میں درکار ہوتا ہے. المختصر جو تعلیم حاصل کی جاتی ہے یا جو اعدادوشمار سیکھے جاتے ہیں اس کا حقیقی زندگی میں یا انڈسٹریل زبان میں استعمال موجود ہی نہیں ہوتا. نصاب کے اندر دی گئ ریسرچ پر جب عملی ورکشاپس میں تجربہ کیا جاتا ہے تو وہ حقیقت سے قدرے مختلف دکھائی جاتے ہیں. 16 سے 18 سال بچے تو تعلیم حاصل کرتے گزرتے ہیں لیکن وہ اپنے اصل مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتا. شعبہ انجینئرنگ میں جو تحقیقات اور ان پر جو پریکٹس کروائی جاتی ہے عملی زندگی میں اس میں بہت فرق ہوتا ہے. جس سے نت نئی ایجادات اور نت نئے طریقے متعارف کروانے کی بجائے پچھلی تصحیحات کو سمجھنے میں کئی قیمتی سال ضائع ہو جاتے ہیں. اور جو وقت بچتا ہے اس میں طالب علم اپنی نوکری کو پکا کرنے کے گر سیکھنے اور آزمانے میں وقت گزار دیتا ہے.
پاکستان میں ریسرچ اور نت نئی ایجادات کے فقدان کی ایک بہت بڑی وجہ نصاب کا انڈسٹریل ضرورت کے مطابق نا ہونا ہے. ریاضی کے انگنت ایسے باب جن کا عملی زندگی میں آج تک سراغ نہ مل سکا.
انجینئرنگ کے قوانین جو پاور اور ہیٹ سے متعلقہ ہیں عملی زندگی سے بہت مختلف ہیں. الغرض پڑھی گئی چیزوں کو من و عن اگر عمل پیرا کر دیا جائے تو کتابوں کی ریسرچ پر بنی ہوئی عمارت گرنے لگے. پاور سٹیشن کی ٹربائن گھومنے سے انکار کر دے. بوائلر اور اس جیسے تھرمل آلات گرم ہونے کی بجائے ٹھنڈک دیں اور تو اور کولنگ سٹیشن اور ٹھنڈک کے آلات آگ سیکنے کے کام آئیں. حقیقتاً یہ مزاق لگتا ہو گا لیکن حقیقت کچھ ایسی ہی ہے. یہاں کانسٹنٹ اور فیکٹر کے نام پر ایسی ایسی بلاوں سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں سمجھنے سالوں لگ جاتے ہیں.
ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان کو احساس ہونے لگتا ہے کہ اس نے زندگی کے 18 میں سے کوئی کم از کم 7 سے 8 سال ضائع کئے ہیں.
وقت کی ضرورت ہے کہ انڈسٹریل کانسٹنٹ اور فیکٹرز پر ریسرچ کر کہ انہیں نصاب کا حصہ بنایا جائے. تعلیم کے نصاب میں اصطلاحات لائی جائیں. ہر شعبہ ہائے سے متعلق ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو عملی طور پر نصاب میں موجود کمی کو دور کرے اور اسے اپگریڈ کرے. تاکہ پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کمرہ جماعت سے ہے حقیقی عمل سے قریب تر ہو کر روشناس ہوں اور صنعت اور تجربہ گاہ کے علم میں موجود اس فرق کو کم سے کم کر کے ریسرچ کی راہ ہموار کی جا سکے.
پاکستان میں زیادہ سے زیادہ ریسرچ سینٹر قائم ہوں جن کو جدت اور انڈسٹری کے تعاون سے اس قدر فعال کیا جائے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انڈسٹری کی فوری ضرورت کو پورا کیا جا سکے. جب کوئی شعبہ صنعت متعارف کرایا جاتا ہے تو اس سے متعلق نصاب پر ریسرچ شروع تو ہو جاتی ہے. لیکن اس صنعت کے حقیقی علم اور کتابی مفروضات میں فاصلہ بڑھتا جاتا ہے. حتیٰ کہ یہ فاصلہ بڑھتے بڑھتے اس صنعت کے لیے خاص فائدہ مند ثابت نہیں رہتا. نصاب تو چھپتے ہیں لیکن ہوتے ہوتے حقیقت سے کہیں مختلف ہو جاتے ہیں. اس فرق کو کم کرنے کی ضرورت ہے. ہر شعبہ سے وابسطہ نصاب کو وقت کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں اور صنعت کے جدید قوانین سے متعارف کرانا بہت ضروری ہے. تاکہ صنعت اور کتابت کے اس فرق کو حتیٰ الامکان ختم کیا جا سکے.

@EngrMuddsairH

Comments are closed.