16دسمبر اس بار بھی متحدہ پاکستان کے دو لخت ہونے کی تلخ یادیں کریدتا ہوا گزر رہا ہے اور ہمارے اخبارات اور میڈیا اس سانحہ کا زیادہ تر وہی رخ دکھا رہے ہیں جو وہ پچھلے پانچ عشروں سے دکھاتے چلے آرہے ہیں۔ جادو نگار قلمکاروں نے اس سانحے پر ایسی یکطرفہ حاشیہ آرائی کی ہے کہ حقائق کئی پردوں تلے چھپ گئے ہیں۔سارا زور نئی نسلوں کو یہ باور کرانے میں لگایا جاتا ہے کہ یہ بس بھارت کی سازش تھی ہاں اس میںکوئی شک نہیں کہ بھارت نے قیام پاکستان کےدن سے ہی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا ،
بھارتی سازشوں کوکوئی مانےیانہ مانے بھارتی وزیراعظم مودی اس کا برملا اظہارکرچکے اب یہ بحث اسی نقطے پرمرکوز ہونی چاہیے کہ مشرقی پاکستان کی متحدہ پاکستان سے علیحدگی میں بھارت کےساتھ اس وقت کی دونوں عالمی قوتیں روس اورامریکہ بھی شامل تھیں
جہاں تک تعلق ہے کہ دشمن کی سازشوں کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کچھ اپنوں کی غلطیاں بھی تھیں تو اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا ،مختصر یہ کہ اس غلطی میں سب سے زیادہ کردارشیخ مجیب ملوث تھا جو اس وقت بھارتیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے ،
اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کے پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل یحییٰ کی نااہلیت بھی شامل تھی، اور ان کے ساتھیوں کی سیاہ کاریوں کا نتیجہ تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سانحے کا ایک کردار ذوالفقار علی بھٹو بھی تھا۔جس کی ضد نے مجیب الرحمن کو ضدی بنادیا،یہ بحث تو ہوتی رہے گی مگراب چلتے ہیں ان مناظر کی طرف جوکبھی بھی ناقابل نظراندازیابھولنے کے قابل نہیں ہیں
بھارتی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کا یہودی چیف آف اسٹاف میجر جنرل جیکب 16 / دسمبر 1971ء کو دوپہر کے وقت ڈھاکا پہنچا۔ اس کا استقبال اس کے پاکستانی مدمقابل بریگیڈیئر باقر صدیقی نے کیا۔ یہودی جنرل اپنے ساتھ ایک دستاویز لایا تھا جسے سقوط کی دستاویز (Instrument of Surrender) کہا جاتا ہے۔ جنرل نیازی اسے جنگ بندی کا مسودہ کہنا پسند کرتے تھے۔
جیکب نے یہ کاغذات پاکستانی حکام کے حوالے کیے۔ جنرل فرمان نے کہا۔ ’’یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ کمان کیا چیز ہے، ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔‘‘ جنرل جیکب نے کہا۔ ’’مجھے اس میں ردوبدل کا اختیار نہیں۔‘‘ انڈین ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل کھیرا نے‘ جو پاس ہی کھڑے تھے‘ لقمہ دیا ’’یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘ جہاں تک آپ کا تعلق ہے آپ صرف ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔‘‘ جنرل فرمان نے کاغذات جنرل نیازی کے آگے سرکا دیے۔ جنرل نیازی جو ساری گفتگو سن رہے تھے خاموش رہے‘ اس خاموشی کو ان کی مکمل رضا سمجھا گیا۔
تھوڑی دیر بعد نیازی‘ بھارت اور بنگلہ دیش کی مشترکہ ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر‘ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کو لینے ڈھاکا ائیرپورٹ گئے‘ بھارتی کمانڈر اپنی فتح کی خوشی میں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لایا تھا۔ جونہی یہ میاں بیوی ہیلی کاپٹر سے اترے‘ بنگالی مردوں اور عورتوں نے اپنے اس نجات دہندہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کو پھولوں کے ہار پہنائے‘ گلے لگایا ‘ بوسے دیے اور تشکر بھرے جذبات سے انہیں خوش آمدید کہا۔ جنرل نیازی نے بڑھ کر فوجی انداز میں سلیوٹ کیا، پھر ہاتھ ملایا۔ یہ نہایت دلدوز منظر تھا۔ فاتح اور مفتوح ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔
جنرل نیازی اور جنرل اروڑا‘ وہاں سے سیدھے رمنا ریس کورس گرائونڈ پہنچے‘ جہاں سرعام جنرل نیازی سے ہتھیار ڈلوانے کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ تقریب کا نظارہ کرنے کے لیے ہزاروں بنگالی موجود تھے۔ جنہیں بھارتی سپاہیوں نے روک رکھا تھا۔ تقریب کے لیے تھوڑی سی جگہ باقی تھی جہاں ایک چھوٹی سی میز پر بیٹھ کر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا اور جنرل نیازی نے سقوط مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کردئیے۔ اس کے بعد نیازی نے اپنا ریوالور نکال کر اروڑہ کو پیش کردیا اور یوں ’’سقوط ڈھاکا‘‘ پر آخری مہر ثبت کردی۔ اس موقع پر جنرل اروڑہ نے پاکستانی سپاہیوں کی ایک گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا جو اس بات کی علامت تھا کہ اب وہی گارڈ ہیں اور وہی آنر کے مستحق…!‘‘
افسوس کا مقام تو یہ ہےکہ دشمن نے اتنا بڑا زخم لگایا لیکن ہم آج تک اس زخم کو مندمل کرنے کی بجائے اس پرنمک پاشی کررہےہیںاورپھرجن لوگوں نے اس وقت اپنی قلم اورزبان سے بھارتیوں کی زبان بولی آج ان کی اولاد یہ کردار اداکرہی ہے، کسی نے سچ کہا کہ میر جعفراورمیرصادق اگرچہ نہیں رہے مگر میروں کی شکل میں غدارضرور پیداہوتے رہیں گے