سعودی عرب کا قومی دن اور پاکستان

saudi

آج عالم اسلام کے مرکزمملکت سعودی عرب کا قومی دن جوش وخروش سے منایا جارہا ہے۔سعودی عرب سمیت دنیا بھر کہ سفارتخانوں میں تقریبات کا اہتمام ہورہا ہے۔سعودی عرب کے قومی دن پر ہر مسلمان کے جذبات مختلف ہیں۔سعودیہ عرب سے پاکستان کا دینی اعتبار سے بھی اہم رشتہ ہے کعبۃ اللہ اور گنبد خضریٰ کی وجہ سے.پاک سعودی تعلقات پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل کے ہیں.1946ء میں قائد اعظم نے ایم ایچ اصفہانی کی معیت میں مسلم لیگ کا ایک نمائندہ اقوام متحدہ بھیج دیا اس وفد کے ذمے یہ کام سونپا گیا تھا کہ تحریک پاکستان کے لئے عالمی راہنماؤں کی تائید حاصل کی جائے۔ اقوام متحدہ کا اجلاس شروع ہو چکا تھا تب چونکہ پاکستان معرض وجود میں نہیں آیا تھا اس لئے مسلم لیگ کے وفد کو اجلاس میں داخل ہونے سے روک دیا۔اس وقت سعودی وفد کی قیادت شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز (جو بعد ازاں مملکت کے بادشاہ بنے)کر رہے تھے۔ جب معلوم ہوا تو بنفس نفیس خود باہر نکل کر انھوں نے مسلم لیگ کے وفد سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ اپنے ہوٹل میں ایک ظہرانہ رکھا اور عالمی راہنماؤں کو وہاں مدعو کیا اور ان سے کہا کہ برصغیر کے مسلمانوں کا وفد آپ کے سامنے اپنا موقف رکھنا چاہتا ہے چنانچہ نیویارک کے ہوٹل میں وفد نے اپنا موقف عالمی راہنماؤں کے سامنے پیش کیا۔پاکستان معرض وجود میں آیا تو مرحوم شاہ عبدالعزیز آل سعود پہلے راہنما تھے جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ٹیلیفون کرکے مبارک باد پیش کی تھی.اس کے بعد پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا۔ شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں ہے جنہوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی۔ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب مین مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔ پاکستان کے عوام ان کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بہت بڑی آبادی شاہ فیصل کالونی کہلاتی ہے اور اسی کی نسبت سے کراچی کے ایک ٹاؤن کا نام شاہ فیصل ٹاؤن ہے۔جبکہ سعودی دارالحکومت ریاض اور جدہ شہر میں ”شارع محمد علی جناح ” کے نام سے سڑکیں موسوم ہیں۔ایک وقت وہ بھی پاکستان پر آیا جب ہمارے ہمسائے ملک بھارت نے دھماکے کرکے ہمیں خبردار کردیا.پورے عالم اسلام میں کسی کے پاس ایٹمی قوت نہیں تھے.پاکستان نے بسم اللہ پڑھ کر اس منصوبے پر کام شروع کردیا.عالمی طاقتوں نے پاکستان کے قرضے بند کردیے پاکستان کی امداد روک دی کوئی پاکستان کو ایک بیرل تیل دینے کو تیار نا تھا.اس موقع پر مخلص دوست سعودی عرب نے پچاس ہزار بیرل تیل فی دن کے حساب سے تین ماہ مفت تیل دیا جس سے پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکا.جب پاکستان ایٹمی قوت بن گیا اور 1998 ء مئی میں چھ دھماکے کرکے بھارت کو اس کی جارحیت کا جواب دیا دوسری طرف سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل اللہ کے حضور سجدے میں جھک گئے اور سعودیہ میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں کیونکہ پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن چکا تھا.
کوئی بھی ایسا مشکل وقت پاکستان پر آیا ہو سعودی حکومت نے پاکستان کا ساتھ دیا.جب حوثی باغیوں اور سعودی عرب کے دوران جنگ ہوئی توسعودیہ عرب نے پاکستان سے مدد طلب کی.پاکستان نے اس وقت کے حکمران میاں محمد نواز شریف کو اپنے حامیوں سمیت دیگر اراکین اسمبلی کی مخالفت بھی تھی اس کے باوجود انہوں نے سعودیہ کے ساتھ تعاون کرنے کی حامی بھرلی اور یہاں سے فوج روانہ کی.سعودیہ عرب نے پاکستان کے ساتھ ملکر فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا جس میں 39 ملک کی افواج کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس فوجی اتحاد کی سربراہی جنرل راحیل شریف کو سونپی گئی جو پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے.
پاکستان اور سعودیہ کی دوستی کے بارے میں اگر لکھا جائے تو کتاب چھپ سکتی ہے اتنے الفاظ ہیں تو چلتے ہیں پاکستان کی برسراقتدار حکومت کے سعودیہ عرب سے تعلقات کی طرف جب عمران خان صاحب وزیر اعظم بنے انہوں نے وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے سعودیک عرب کا دورہ کیا اور اس کے بعد بھی مختلف اوقات میں دورے کیے جن میں سعودی عرب کے حاکم کو پاکستان دورے کی دعوت بھی دی جو انہوں نے قبول کی اور پاکستان تشریف لائے اس دوران کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔اس حالیہ کورونا وباء نے پوری دنیا میں اپنا جال بچھایا اسی طرح سعودی عرب کو بھی بری طرح اس نے متاثر کیا۔سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے لاکھوں زائرین حرمین شریفین اور مدینۃ النبی ﷺ کی زیارت سے محروم رہے۔اس وباء کے دوران سعودی حکومت نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔بالخصوص حج جیسے فریضے کو رکنے نہیں دیا جو کہ میں سمجھتا ہوں سعودی حکومت کا قابل تحسین اقدام ہے۔سعودی عرب اور پاکستان کا قلب وجان کا تعلق خدا تعالی ہمیشہ قائم رکھے اور سرزمین حرمین کو دشمن کی نظر سے محفوظ رکھے۔آمین

Comments are closed.