سپریم کورٹ سے عادل بازئی کو بڑا ریلیف مل گیا
سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو بطور رکن اسمبلی بحال کر دیا۔ عادل بازئی کی الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل منظور کر لی گئی، الیکشن کمیشن کا 63-اے کےتحت ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا،سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا دیئے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ حقائق جانچنے کیلئے کمیشن نے انکوائری کیا کی؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بس بڑے صاحب کا خط آگیا تو بندے کو ڈی سیٹ کردو یہ نہیں ہو سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پیمانہ تو سخت ہونا چاہیے تھا،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایک شخص کہتا ہے بیان حلفی میرا نہیں تو الیکشن کمیشن تعین کیسے کرتا ہے؟الیکشن کمشین نے حقائق کا تعین کیسے کیا؟ کونسا قانون الیکشن کمشین کو اختیار دیتا ہے کہ وہ انکوائری کر سکے؟وکیل ن لیگ حارث عظمت نے کہا کہ عدالت کے سوالات بہت اچھے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال اچھے ہیں لیکن آپ جواب نہیں دے پا رہے،
الیکشن کمیشن نے تو بلڈوزر لگایا ہوا ہے، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن ملک کی تمام عدالتوں سے بالاتر ہے؟آپکو کسی چیز کی پرواہ ہی نہیں، کیا آپ کسی کو نہیں مانتے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتوں اور مجسٹریٹوں کو بھی نہیں مانتے، خود بھی انکوائری نہیں کرتے،کیا الیکشن کمیشن کے پاس ایسا ٹرائل کرنے کا اختیار ہے؟ٹرائل کورٹ کی پاور الیکشن کمیشن کے پاس کہاں سے ہے؟ الیکشن کمیشن نے تو بلڈوزر لگایا ہوا ہے،
عادل بازئی نے رکنیت معطلی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، الیکشن کمیشن نے عادل بازئی کی رکنیت ختم کر دی تھی
عادل بازئی آزاد امیدوار منتخب ہونے کے بعد ن لیگ میں شامل ہوئے ،آرٹیکل 63 اے کے تحت عادل خان بازئی کی نشست خالی دینے کی درخواست دی تھی ،عادل خان بازئی کی نااہلی کا ریفرنس پارٹی صدر نواز شریف نے سپیکر کو بھجوایا تھا،عادل بازئی نے بجٹ سیشن کے دوران پارٹی ہدایت کی خلاف ورزی کی
مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے آرٹیکل 63 اے کے تحت عادل بازئی کی نااہلی کے حوالے سے ایک ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوایا تھا۔ اس ریفرنس کے تحت قومی اسمبلی نے عادل بازئی کی نشست خالی قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے، جس کے بعد یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا۔عادل بازئی نے آزاد حیثیت سے حلقہ این اے 262 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تھی اور پارٹی کی پالیسی کے تحت حلف نامہ جمع کرایا تھا۔ تاہم، انہوں نے حالیہ سیاسی حالات کے دوران پارٹی کی ہدایت کے خلاف 26 ویں آئینی ترمیم اور وفاقی بجٹ کے بارے میں ووٹ نہیں دیا، جس کی وجہ سے ان کی وفاداری پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے پہلے ہی دو خطوط الیکشن کمیشن کو بھیجے تھے، جس میں عادل بازئی کی نااہلی کے حوالے سے شواہد پیش کیے گئے تھے۔
بلتستان ڈویژن میں برفباری کے بعد سردی میں اضافہ، نظام زندگی متاثر