سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو صحافیوں کی گرفتاری سے روک دیا

غلط استعمال تو بہترین قسم کے قانون کا بھی ہو جاتا ہے,جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
supreme court01

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو آئندہ سماعت تک صحافیوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا –

باغی ٹی وی : سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کیے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی،پریس ایسوسی ایشن کے وکیل صلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل میں کہا کہ ایف آئی اے پیکا ایکٹ کے غلط استعمال کی عادی ہو چکی،بیرسٹر صلاح الدین نے جسٹس اطہر من اللہ کے ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پیکا سیکشن 20 کی ایک جز کو کالعدم قرار دے چکی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ رپورٹٹڈ فیصلہ ہے؟ اس پر صلاح الدین نے کہا کہ صرف مختصر حکم نامے میں اس سیکشن کو کالعدم کیا گیا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس کا تفصیلی فیصلہ بھی آیا تھا؟ تو بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا تفصیلی فیصلہ آیا۔

نو تشکیل یافتہ پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کی افتتاحی بورڈ میٹن

چیف جسٹس نے پوچھا اس فیصلے میں ایک پورا آرڈیننس بھی کالعدم کیا گیا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ وہ ایک نیا آرڈیننس آرہا تھا اسے کالعدم کیا گیا تھا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میرے خیال میں یہ فیصلہ چیلنج نہیں کیا حتمی ہو چکا، پرائیویسی میں مداخلت کے نام پر صحافیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ غلط استعمال تو بہترین قسم کے قانون کا بھی ہو جاتا ہے، آپ پرائیویسی کو کوالیفائی کیسے کریں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ کے ہائی کورٹ والے فیصلے میں پرائیویسی پر بات نہیں کی گئی ہے، آپ چاہتےہیں ہم 184 /3 میں سنتے ہوئے اس کی تشریح کریں؟-

سینیٹ انتخابات،محسن نقوی، احد چیمہ،حامد خان سمیت سات بلامقابلہ منتخب

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ یہ معاملہ سیکشن 24 ، سائبر اسٹاکنگ سے متعلق ہے، یہ اس میں شامل ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کسی شق کو کالعدم کر سکتی ہے یا اس کی تشریح کر سکتی ہے وکیل نے کہا کہ نوازشریف اور بانی پی ٹی آئی کے دور میں صحافیوں کےخلاف اس قانون کا استعمال ہوا، موجودہ دور میں پھر اسی معاملے پر آپ کے سامنے ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ایف آئی اے کو تعلیم تو دے سکتے ہیں کہ اس قانون کا مقصد کیا ہے، وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے صحافی کو ایسے گرفتار نہیں کر سکتی، ایف آئی اے خود سے مقدمہ درج نہیں کر سکتی، شکایت کا مدعی ایف آئی اے کا اپنا افسر ہے۔

ججز کا خط،چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس معاملے میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی؟ یہ تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 160 کے تحت نوٹس ہیں، یہ تو ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے کا نوٹس ہے، ایسا نوٹس تو کل کو مجھے مل سکتا ہے، آپ کیوں خود سے تصور کر رہے ہیں وہ ایف آئی آر درج کریں گے؟ کئی بار اوپر سے بہت پریشر آجاتا ہے، افسر پریشر ہٹانے کے لیے نوٹس دے دیتا ہے مگر ایف آئی آر نہیں کاٹتا، گرفتار بھی نہیں کرتا، اس نوٹس میں تو وہ بطور گواہ بھی کسی کو بلا سکتے ہیں، اگر کوئی چیز آپ غیر قانونی دکھائیں گے تو ہی اسے ہم کالعدم کریں گے، ہم ایک قانونی عمل کو کالعدم نہیں کریں گے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر کے اندراج کا معاملہ پہلے آتا ہے، طلبی بعد میں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پھر آپ یہ چاہتے ہیں نوٹس 160 کی جگہ سیکشن 157 کا ہونا چاہیے؟اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اگر ایف آئی آر درج ہو چکی ہو تو ہی نوٹس آسکتا ہے-

بالٹی مور،جہاز حادثہ،ڈوبنے والوں میں چھ بھارتی شہری شامل

بعد ازاں عدالت نے آئندہ سماعت تک ایف آئی اے کو صحافیوں کی گرفتاری سے روکتے ہوئے کیس کی سماعت 2 اپریل تک ملتوی کر دی۔

Comments are closed.