ماں کی گود کے بعد بچے کی درسگاہ کی زمہ داری اس کے اساتذہ پر عائد ہو جاتی ہے. جو اسے زندگی کے جھمیلوں سے نمٹنے کے لیے ہیرے کی طرح تراشتا ہے. اس زمرہ میں معاشرتی اصول و ضوابط کے مطابق تعلیمی اداروں میں یہ کام سر انجام دیا جاتا ہے. جہاں اساتذہ اپنے علم و ہنر کے جوہر آزماتے ہوئے طالب علم کو تراشتے اور انمول ہیرا بناتے ہیں.
تعلیمی سرگرمیوں میں بچوں کی صحت اور جسمانی تروتازگی کے لیے مختلف کھیلوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے.
گزشتہ چند سالوں میں جب تعلیمی اداروں میں Co-Education نظام کے ترجیحات کو ایک نیا رنگ دیا. پہلے پہل تو اوقات کار بچوں اور بچیوں کے الگ تھے. پھر رفتہ رفتہ اوقات کا تو درکنار کمرہ جماعت بھی اکٹھے ہو گئے. اس پر پھر جو آزادی دی گئی اس نے تعلیمی اداروں کے معیار کو برباد کر کے رکھ دیا. آج میٹرک جماعت کے طلبہ ٹک شاپس پر گلچھرے اڑاتے دکھائی دیتے ہیں. رہی سہی کسر سکولوں اور کالجز میں کھیلوں کی سرگرمیوں کی مد میں ڈانس پارٹیوں نے نکال دی. آج کل تو معروف ادارے ماڈرنائزیشن کے نام سےکپل ڈانس جیسی لعنتوں کا سہرہ اپنے سر سجاتے نظر آتے ہیں. جس عمر میں بچوں کو اچھائی اور برائی کا شعور آنا چاہیے تھا اس عمر میں ان کی آپسی انڈرسٹینڈنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے.
یہ کیسی تعلیم ہے جس میں بچوں کو انڈرسٹینڈنگ کے نام پر عشق و معشوقی کے جزبات سکھاے جا رہے ہیں. ہماری نسلوں کو تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے. میرا اتفاق ہوا انگلش لینگوج کا کورس کرنے کا. اتفاقاً اس ادارے میں صبح میں سکول اور شام میں ٹیوشن سنٹر قائم تھا. میں اور میرے برادر محترم سمیت ان کے چند دوست بھی جو کہ اس کورس میں دلچسپی رکھتے تھے نے شمولیت اختیار کی. شام میں ہم سب بھائی اور دوست اس ادارے میں اپنے انگریزی زبان کہ تقویت کا عزم لیے داخل ہوئے. وہاں ایک تعداد آٹھویں سے دسویں جماعت کے طلبہ اور طالبات کی بھی تھی. پہلا دن تو تعارف میں گزرا. لیکن انکی اٹکیلیوں اور شرارتوں سے فضا نامعقول محسوس ہوئی. اگلے دن جب ہم دوبارہ کلاس لینے پہنچے تو ہم سے پہلے ایک بڑی تعداد اس ادارے میں بچوں کی صف اول میں موجود تھی. مختصر تعارف سے معلوم ہوا کہ یہ اسی سکول کے بچے ہیں جو صبح یہاں سکول پڑھتے ہیں. کلاس کو شروع ہوئے 15 منٹ گزرے تو چٹ چیٹ کا آغاز ہو گیا. جو کہ بڑھتے بڑھتے کاغذ کے گولے بنا کر ایک دوسرے کو مارنے تک جا پہنچا. استاد محترم وہاں تہزیب کا درس دیتے بے بس دکھائی دے رہے تھے. بالآخر استاد محترم کی جوانی پر بات چھڑ گی اور نو عمر 28 سالہ استاد محترم بھی خوش گپیوں میں مشغول ہو گئے. کلاس کا وقت انہی خوش گپیوں میں مکمل ہوا. ہمارے بار بار اصرار پر کلاس پر توجہ دلانے کی ناکام کوشش بھی جاری رہی. وہ دن ہمارا اس ادارے میں آخری دن تھا. کیا یہ ہمارے مستقبل کے معمار ہیں؟
میرا سوال ان طالبات سے بھی ہے جنہیں چٹ چیٹ سے فرصت نہیں تھی.
جن طلبا کے جزبات چکنی چپٹی باتوں سے ابھارے گئے کیا وہ کل روشن مستقبل بنا پائیں گے. پھر گناہ سب لڑکوں کا ہوتا کہ اچھے رشتے نہیں ملتے. پڑھی لکھی بیٹیاں بوڑھی ہو رہی ہیں. کیا ہم یہ اپنا مستقبل بنا رہے ہیں. میرا سوال ان طلبا سے بھی ہی جنہیں بکنی چپٹی باتیں سننے کا شوق ہے. کیا اپنی گھر کی بہن بیٹی کو یہ آزادی دو گے. کہ وہ تمہاری من چاہی گڑیا کی طرح اپنے کسی شہزادے کی باہوں میں جھومتی پھرے؟
کیا ماں باپ اس لیے بھیجتے کہ ان کے بڑھاپے کو اپنے نکھٹو مستقبل سے برباد کرو؟
میرا سوال تعلیمی اداروں سے ہے. یہ انڈرسٹینڈنگ کے نام پر بچوں کے جزبات ابھار کر اور ڈانس پارٹیوں سے ان میں قربتیں بڑھا کر ڈانس پارٹیوں میں تنگ لباس سے بچیوں کے جسموں کی نمائش کروا کر اور شہوت کو فروغ دے کر کونسا بھلائی کا کام انجام دیا جا رہا ہے؟ اللہ رب العزت کے متعین کردہ حج و عمرہ کے فرائض جہاں عورت کو صفا مروہ دوڑنے تک کی اجازت نہیں تم بنت ہوا کو نا محرموں میں نچا کر کونسی روزی حلال کر رہے ہو؟
حضور نبی کریم خاتم النبیںن محمد صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا. جو شخص چاہے کہ مسلمانوں میں فحاشی پھیلے اس کے لیے درد ناک عزاب ہے.
خدارا ہوش کے ناخن لیں. ماں باپ اپنے بچوں کے لباس اور تہزیب کا خیال کریں. اساتذہ بچوں کے مستقبل کو خراب ہونے سے روکیں. تعلیمی ادارے اس طرح کے ماحول کو ترک کر کہ ایک اچھا پلیٹ فارم مہیا کریں. جہاں سے نکلنے والے طلبہ اور طالبات تمہارے سکھاے ہوے علم و اداب کی بدولت اپنا مستقبل روشن کر سکیں. تاکہ مستقبل کی نسل کو تباہی سے بچایا جا سکے.

@EngrMuddsairH

Shares: