اسکول نہیں نوٹوں کی مشین ہیں! تحریر: عقیل احمد راجپوت

پاکستان کا سب سے بڑا المیہ تعلیم کا بوسیدہ نظام سرکاری اسکولوں میں تعلیم نام کی چڑیا اگر کسی پاکستانی نے دیکھی تو وہ 80 کی دھائی کا زمانہ تھا اس کے بعد سیاست دانوں سے لیکر ہر کاروباری شخصیت نے اپنے ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر اسکول کا انتخاب کیا جس میں کبھی نقصان ہو ہی نہیں سکتا اس بھیانک صنعت کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے سرکاری اسکولوں میں معنوں تعلیم ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسے غائب ہورہی ہے جیسے کراچی سے صفائی کا نظام کراچی والوں کی مثالیں اب اسی طرح کی ہوگئی ہے خیر اسکول مافیا کا زور آج اتنا بڑھ چکا کے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور واضح احکامات کے باوجود یہ مافیا اپنی مان مانی جاری رکھا ہوا ہے فیسوں سے لیکر کاپیوں اور یونیفارم سے لیکر مختلف پروجیکٹس کے نام پر والدین کی جیبوں سے پیسہ ایسے نکالا جاتا ہے جیسے کراچی میں مرغی کا ریٹ پھر کراچی والا!

تو قدر دانوں بات یوں ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے نام پر اساتذہ کو دی جانے والی تنخواہیں اسکولوں کے نام پر جاری ہونے والے فنڈ ایسے غائب ہورہے ہیں جیسے کچرے میں کراچی غائب ہو رہا ہے!
اسکول پر اربوں کھربوں لگانے والے حکمرانوں میں سے کسی ایک اولاد ان سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہوئی دکھائی دیتی تو مجھے احساس ہوتا کے پاکستان دو نہیں ایک ہوگیا تبدیلی کے بعد مگر پاکستان تبدیلی کے بعد بھی دو ہیں تبدیلی کا نعرہ لگانے والے یہ حکمران اپنے بچوں کو بیکن ہاؤس اور ماما پارسی جیسے اسکولوں سے نکال کر کالے پیلے اسکول میں جب داخلہ کروانا شروع ہوجائیں تو سمجھ لینا تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آگئی ہے مگر فلحال تبدیلی ایسی ہی ہے جیسے کراچی کی پینے کے پانی کی لائنوں سے آتا ہوا گٹر ملا پانی!

اسکول مافیا کی من مانیاں اس قدر بھڑ چکی ہے کے اب انہوں نے ان کاروباری سرگرمیوں کو رہائشی علاقوں میں بھی شروع کردیا عام سا بجلی پانی اور ٹیکس دینے کے بعد یہ کمرشل کاروبار کو رہائشی علاقوں میں چلا کر علاقے کی عوام کو روزانہ کی بنیاد پر مشکل اور پریشانیوں میں ڈال رہے ہیں اسکول کی چھٹیوں کے وقت اس پاس کے لوگ اپنے گھروں سے کسی ایمرجنسی کی صورت میں باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے بلکل کراچی کی سڑکوں پر چوتھے گیر میں لگاتار گاڑی چلانے کی طرح!

تو حکمرانوں اور اداروں سے درخواست ہے کہ مافیا ختم تو آپ نہیں کرسکتے کم سے کم اس پر قانون سازی کرکے ایک راہ ہموار کریں جس کے زریعے گزرنے والے والدین کو اپنی پریشانیوں کو کس حد تک بڑھانا ہے اور اپنا کتنا پیٹ کاٹنا ہے معلوم ہو بلکل اسی طرح جیسے کراچی والوں کو پانی آنے اور ٹینکرز کس دن ڈلوانا ہے معلوم ہوتا ہے
کرونا وائرس کے ادوار میں فیسوں کا معاملات کو دیکھا جائے فیسوں کو والدین کی استقامت کے مطابق وصول کیا جائے بچوں کو فیسوں کے جمع نا کروانے پر اسکول سے نکالنے کے عمل کو رکوایا جائے بچوں کو فیس نا دینے کی پاداش میں سزائیں نا دی جائے ان کی دل آزاری اور تضحیک نا کی جائے بلکل اسی طرح جیسے کراچی کے نالے صاف نہیں کئے جاتے!

آخری اور اہم نوٹ پر بات کا اختتام کرتا ہوں کہ رہائشی علاقوں سے اسکولوں کو فوری کمرشل جگہوں پر شفٹ کیا جائے کیونکہ خدا نا خواستہ کسی حادثے کی صورت میں وہاں ریسکیو آپریشن نہیں کیا جاسکتا اسکول میں ایمرجنسی اخراج کا کوئی موثر نظام نہیں اس پر فوری عملدرآمد کروایا جائے تاکہ حادثے کی صورت میں جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے میری یہ درخواست چارج شیٹ ہیں ان اداروں کے افسران کے خلاف جو اس کے کرتا دھرتا ہیں ایسے کسی بھی حادثے کی صورت میں وہ اسکے زمہ دار ہونگے

Comments are closed.