سیلاب متاثرین کی مدد ایسے بھی کریں

از قلم غنی محمود قصوری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حدیث کہلاتا ہے اور رب کا فرمان قرآن مجید فرقان حمید دونوں پہ عمل کرنا لازم و ملزوم ہےجب تک قرآن و حدیث دونوں کو نا سمجھا جائے بات کی سمجھ نہیں آئے گی ،مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد کا حکم دیا گیا ہے تاکہ کمزور لوگ دنیاوی اور مدد کرنے والا اخروی فلاح پائے-

ہمارے ہاں ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ ہر سنی سنائی بات پہ عمل کیا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہےاسی لئے کہا گیا ہے کہ خوب تحقیق کے بعد ہی بات آگے پہنچائی جائےاس وقت ملک پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور لوگ سیلاب متاثرین کی مدد میں لگے ہوئے جو کہ اس وقت ہم پر بحیثیت مسلمان اور پاکستانی فرض عین ہے-

لوگ کپڑوں،راشن،ادویات اور نقدی کی صورت میں متاثرین کی مدد کر رہے ہیں اس مدد بارے قرآن مجید فرقان حمید نے ہمیں ایسے حکم جاری کیا ہے

لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ۔۔۔تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے-

جبکہ حدیث رسول ہے

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے،صحیح متفق علیہ

کچھ لوگوں کی طرف سے اس آیت و حدیث کی رو سے لوگوں کو پرانی استعمال شدہ اشیاء سیلاب زدگان کو عطیہ کرنے سے روکا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اپنی محبوب اشیاء یعنی نئی اشیاء ہی صدقہ خیرات کی جائیں اور اپنے بھائیوں کیلئے بھی وہی پسند کریں جو آپ خود پسند کرتے ہیں نیز پرانی اور استعمال شدہ اشیاء دینا درست نہیں-

مجھے ان لوگوں کی نیت پہ شک نہیں وہ اپنی طرف سے بہت اخلاص کی بات کر رہے ہیں مگر میں ان کی خدمت میں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان پیش کرتا ہوں عمر بن خطاب نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی ،الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي

ترجمہ۔۔۔تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں اور اپنی زندگی میں حسن و جمال پیدا کرتا ہوں-

پھر انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا،جس نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی
الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي
پھر اس نے اپنا پرانا (اتارا ہوا) کپڑا لیا اور اسے صدقہ میں دے دیا، تو وہ اللہ کی حفاظت و پناہ میں رہے گا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ، ( ترمذی 3560 )

اوپر والی آیت و حدیث ہمیں اپنی محبوب ترین چیز ( نئی غیر استعمال شدہ) اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیتی ہے اور اپنی پسند اپنے بھائی کیلئے پسند کرنے کا حکم دیتی ہے جبکہ دوسری حدیث رسول ہمیں پرانی استعمال شدہ چیزیں صدقہ خیرات کی تلقین کر رہی ہے-

اب غور کریں تو پتہ چلے گا کہ جو صاحب ثروت مالدار لوگ ہیں وہ اللہ کے فرمان کے مطابق اپنی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلی معیاری اور قیمتی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کریں اور وہی چیز دوسروں کیلئے پسند کریں جو خود کرتے ہیں جبکہ دوسری حدیث رسول مالی کمزوروں کو تلقین کر رہی ہے کہ اپنی استعمال شدہ چیزیں بھی صدقہ خیرات کی جائیں تاکہ ان سے بھی کم مالی حیثیت اور افت زدہ لوگ وہ چیزیں استعمال کریں،ہمیں ایسی باتوں کی سمجھ تبھی آتی ہے جب قران و حدیث دونوں کو پڑھا سمجھا جائے

اس وقت سیلاب زدگان کو کپڑوں و بستر کی سخت ضرورت ہے ہمیں چائیے کہ اپنی مالی حیثیت کے مطابق ان کو نئی اشیاء بھی صدقہ کریں اگر اتنی طاقت نہیں تو ان کو اپنی استعمال شدہ پرانی چیزیں بھی صدقہ خیرات کریں تاکہ وہ مصیبت کے مارے لوگ اپنی ضرروت پوری کر سکیں

سیلاب زدگان کی مدد اس وقت ہر صاحب ثروت پر فرض ہے کیونکہ یہ ہم سب کا قومی و اسلامی فریضہ ہےخداراہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کی مدد کریں بہت سی مذہبی جماعتیں ان تک سامان پہنچا رہی ہیں –

اگر ہم خود جا سکتے ہیں تو اجتماعی شکل میں خود جا کر مدد کریں بصورت دیگر ان مذہبی جماعتوں کے توسط سے لازمی مدد کیجئے
اللہ تعالی ہم سے راضی ہو اور سیلاب زدگان کی مدد کے عیوض ہمیں اچھا صلہ عطا فرمائے آمین

Shares: