صحت کارڈ کے نام پر خیبر پختونخوا میں لوٹ مار،ایک ہی بچی کا 20 بار آپریشن،مگر کیسے؟

sehat card

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو صحت کارڈ دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کیا گیا وہیں تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے خیبرپختونخوا میں صحت کارڈ پر ہونے والے آپریشنز کا آڈٹ کرنے کی سفارش کی گئی ہے،صحت کارڈ کے نام پر بھی بڑے پیمانے پر کرپشن سامنے آئی ہے،ایک ہی بچی کا 20 بار آپریشن کیا گیا ہے جس کی دستاویزات سامنے آ گئی ہے،

دستاویز کے مطابق نجی اسپتال میں 2022ء میں صحت کارڈ کے تحت 2602 آپریشنز کیے گئے، جن میں صرف اپنڈکس کے 1829 آپریشنز ہوئے، سامنے آنے والے صحت کارڈ ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ بعض افراد کے دو مرتبہ اپنڈکس کا آپریشن کیا گیا، خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں اپنڈکس آپریشن کی شرح 70 فیصد سے بھی زائد رہی ہے، سرکاری ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر صاحبزادہ امتیاز نجی اسپتال کے شریک مالک ہیں، دیر اپر میں سرکاری ہسپتال کو صحت کارڈ پینل میں شامل نہیں کیا گیا، اپنڈکس آپریشن کی مد میں انشورنس کمپنی سے 3 کروڑ روپے حاصل کیے گئے، سامنے آنے والے ڈیٹا کے مطابق ایک شخص کا نام متعدد بار علاج کے طور پر شامل کیا گیا ہے،ایک بچی کا 20 بار آپریشن دستاویزات کے مطابق کیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ ایک ہی نام کی بچی کا 20 بار آپریشن کیسے اور کیوں کیا گیا، ایک ہی آپریشن باربار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، درھقیقت ایک ہی بچی کے نام پر بار بار آپریشن کا دستاویزات میں لکھ کر مال بنایا گیا،

صحت کارڈ، پی ٹی آئی دور میں پنجاب میں من پسند نجی ہسپتالوں کو اربوں روپے کی ادائیگیاں کی گئیں،پی ٹی آئی کے صحت کارڈ منصوبے میں بے ضابطگیوں کے خلاف پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع کرا دی گئی، قرارداد ن لیگی رکن اسمبلی حنا پرویز بٹ نے جمع کروائی جس میں‌مطالبہ کیا گیا کہ صحت کارڈ منصوبے کی تمام تفصیلات قوم کے سامنے لائی جائیں،

ایک صارف کا کہنا ہے کہ صحت کارڈ کی وجہ سے ڈاکٹرز قصائی بنے ہوئے تھے،ایک بندے کے 7 بار آپریشن ہوئی تھی صحت کارڈ اصل میں پی ٹی آئی کی کرپشن کا گیٹ وے تھا،پرایوئٹ ہسپتال باقاعدہ پی ٹی آئی کو حصہ دے رہے تھے،نیب کو اس پر تحقیقات کرنی ہوگی غریبوں کی نام پر اتنا پیسہ کہاں گیا ۔۔؟خیبرپختونخوا پر قرضہ 90 ارب سے 1100 ارب تک کیسے پہنچا سب پر تحقیقات ہونی چاہیے

خیبر پختونخوا میں صحت کارڈ اسکیم کے حوالے سے کرپشن کے الزامات نے عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔ یہ اسکیم بنیادی طور پر صوبے کے کمزور طبقے کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے شروع کی گئی تھی، لیکن اس کے تحت کچھ لوگوں نے ذاتی فائدے کے لئے اسے استعمال کیا ہے۔حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹوں کے مطابق، صحت کارڈ کی تقسیم میں شفافیت کی کمی اور بعض افراد کے ذریعے غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھانے کے واقعات نے حکومت کو جوابدہی کے چیلنج کا سامنا کر دیا ہے۔ مختلف علاقوں میں ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جہاں صحت کارڈ ہولڈرز نے غیر قانونی طور پر دوسری طبی سہولیات کے لئے بھی کارڈ کا استعمال کیا۔ عوامی سطح پر اس معاملے پر شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح کی بدعنوانی جاری رہی تو اصل مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا اور وہ لوگ جو واقعی مدد کے مستحق ہیں، وہ اس سہولت سے محروم رہ جائیں گے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اگر حکومت فوری طور پر مؤثر اقدامات نہیں کرتی تو صحت کارڈ اسکیم کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ عوامی اعتماد بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت شفافیت کو یقینی بنائے اور ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرے جو اس اسکیم کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ حکومت کے اقدامات صحت کے نظام میں بہتری کے لئے اہم ہیں، لیکن ان کی کامیابی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ان پر عملدرآمد شفاف اور غیر جانبدارانہ طریقے سے کیا جائے۔

Comments are closed.