اسلام آباد(21 جولائی2020)ء: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستوں و سرحدی امور کا اجلاس بروز منگل کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر تاج محمد آفریدی کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ کمیٹی نے پاک افغان طورخم بارڈر پر تجارتی حجم میں کمی اور کوکی خیل تیراہ راجگل متاثرین سمیت پورے قبائلی اضلاع کے متاثرین کی باعزت اپنے علاقوں میں واپسی نہ کرنے اور ان کی بحالی کیلئے مناسب مالی معاونت کرنے میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کیا۔
کمیٹی کے ممبران سینیٹرمحمد عثمان خان کاکڑ،سینٹر ایوب آفریدی،سینٹر مومن خان،سینٹر ہلال الرحمان،سینٹر اورنگزیب خان اورگزئی، شمیم آفریدی، ہدایت اللہ، فدا محمد، مرزآفریدی اور لال دین کے علاوہ متعلقہ مختلف اداروں کے سربراہان، ڈی سی ضلع خیبر محمود اسلم وزیر،ڈی پی اوضلع خیبر ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی شرکت کی۔اجلاس میں پاک افغان تجارتی حجم میں کمی،طورخم بارڈر پر تجارتی سرگرمیوں میں سختی اور ٹرانسپورٹروں کے مشکلات زیر بحث لائے گئے۔کمیٹی نے پاک افغان طورخم بارڈر پر تجارتی حجم میں کمی،ٹرانسپورڑروں کی مشکلات میں اضافہ اور طورخم بارڈر پر تجارتی سرگرمیوں میں سختی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کیں کہ پاک افغان شاہراہ کے ذریعے تجارتی حجم میں اضافے کے لیے عملی اقدامات کریں اور پاک افغان شاہراہ پر بھتہ کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں جبکہ پاک افغان شاہراہ پر قانونی ٹرمنل بنا ئیں
۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کسی تنظیم یا شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ غیر قانونی ٹرمنل بنا کر ایک ٹرک سے غیر قانونی پیسے لے اگر کوئی چاہے کہ وہ کسی ٹرمنل میں اپنے مرضی کے مطابق ٹرک کھڑے کرنا چاہتاہے تو ٹھیک ورنہ زبردستی کسی کو ٹرمنل میں کھڑے نہیں کرسکتے۔ کمیٹی نے ہدایات دیں کہ پولیس اس مسئلے کو حل کرے کیوں کہ گزشتہ ماہ لڑائی کے دوران ایک ٹرانسپورٹر جاں بحق بھی ہوچکا ہے۔اجلاس میں وزیرستان،کوکی خیل راجگل متاثرین سمیت قبائلی اضلاع کے متاثرین کی باعزت واپسی اور ان کی بحالی کو یقینی بنانے اور نقصانات کے ازالے کے حوالے سے پی ڈی ایم اے نے کمیٹی کو بریفنگ دی اور کہا کہ نقصانات کے ازالے کے بعد واپسی کی جائے گی۔کمیٹی کے ممبران نے کہا کہ متاثرین کو دی جانے والے امدادی رقم کم ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج محمد افریدی نے کہا کہ تاریخی باب خیبر پر متاثرین نے دھرنا دیا ہوا ہے تاہم ابھی تک متعلقہ اداروں،حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
احتجاجی کیمپ کے شرکاء سے مذاکرات کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ تیراہ متاثرین نے دس سال سے ملک کی خاطر نقل مکانی کی ہے وہاں پر ان کے گھر،کھیت اور جنگلات تباہ ہو ئے ہیں اس لیے ان کے علاقے کلیئر ہوئے ہیں ان کی واپسی جلد سے جلد کرکے نقصانات کے ازالہ کے لیے عملی اقدامات کئے جائیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج محمد آفریدی نے تیراہ راجگل کوکی خیل متاثرین سمیت قبائلی اضلاع کے متاثرین کی رجسٹریشن،نقصانات کے ازالے پر ون پوائنٹ ایجنڈا پر عید الضحیٰ کے بعد اجلاس طلب کیا جائے گا جس میں متاثرین کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جائے گا۔کمیٹی نے خیبر چیمبر آف کامرس کے نقطہ نظر کو بھی سنا۔کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر تاج محمدآفریدی نے کہا کہ مسئلہ انتہائی اہم ہے اور اس کا براہ راست اثر مقامی تاجروں، کاروبای طبقے اور ان سے متعلقہ دوسرے شعبوں پر پڑا ہے۔
خیبر چیمبر آف کامرس کے نمائندوں نے کمیٹی کو زمینی حقائق سے متعلق آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کو شدید مشکلات درپیش ہیں اور تجارتی حجم پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جبکہ بارڈر ایرا میں ہزاروں کی تعداد میں کنٹینر داخلے کے منتظر ہیں۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے اور متعلقہ ادارے آپس میں رابطہ کاری کو بڑھاتے ہوئے اس مسئلے کا حل نکالیں تاکہ نہ صرف ٹرانسپورٹرز بلکہ تاجر برادری کو بھی تحفظ فراہم کیا جا سکے اور نقصانات کا ازالہ ہو سکے۔کمیٹی نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ غیر قانونی پارکنگ ایریاز کے خلاف کاروائی کی جائے اور پولیس اس سلسلے میں اپنا موثر کردار ادا کرتے ہوئے کمیٹی کے اگلے اجلاس میں رپورٹ پیش کرے۔سینیٹر ہدایت اللہ اور سینیٹر محمد ایوب آفریدی نے بھی مسائل کے حل پر زور دیا اور کہا کہ حکومتی سطح پر جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے اور جو کمیٹی بنائی گئی ہے وہ مشکلات کو دور کرنے کیلئے حکمت عملی اپنائے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ کسٹم کا عملہ دن رات موجود ہے اور گاڑیوں کا معائنہ کیا جارہا ہے اور معائنے کا مقصد انسانی سمگلنگ، منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اشیا ء کی نقل و حمل پر نظر رکھنا ہے۔سینیٹر تاج آفریدی نے کہا کہ عوام کو ریلیف دینا انتہائی اہم ہے۔ عید الااضحی تک اس سلسلے میں کوئی مناسب لائحہ عمل اختیا رکرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ بارڈر پر پھنسے ہوئے لوگوں کو سہولت فراہم کی جا سکے۔سینیٹر اورنگزیب اورکزئی نے کہا کہ سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخواہ کے ساتھ انضمام کے بعد مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور صوبائی حکومت ٹرمنلز بنائے اور موجود ٹرمنل کی استعداد کار بڑھائی جائے اور تمام ادارے اپنے دائر ہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں تاکہ ان ملک کی تجارت اور معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔کمیٹی کو چھوٹے ڈیموں کی ایری گیشن محکمے کو حوالگی اور ایڈہاک ملازمین کے مستقبل کے بارے میں بتایا گیا۔ کمیٹی نے کہا کہ ایسے بہت سے ملازمین ہیں جنہوں نے زندگی کے کئی سال ان منصوبوں میں گزار دئیے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ ان ملازمین کے حق میں بہتر فیصلہ کیا جائے اور ان کو مستقل ملازمت دی جائے۔کمیٹی کو مہمند کیڈیٹ کالج سمیت دیگر اہم منصوبوں پر ہونے والی پیش رفت اور سکولوں کی تعمیر پر بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
جنوبی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی مالی معاونت کے حوالے سے سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کے ایوان میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت مسئلے پر کمیٹی نے متعلقہ اداروں کو ہدایات دیں کہ شفاف انداز میں آئی ڈی پیز کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔ مختلف اضلاع میں بہت سے آئی ڈی پیز آج بھی مالی معاونت اور حکومتی سرپرستی کے منتظر ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1 لاکھ35 ہزار گھروں کا سروے کیا گیا اور تمام اعداد وشمارکو اکھٹا کر کے کمپیوٹرائز کیا گیا۔94 ہزار کے قریب گھر متاثر ہوئے تھے اور جو کیس میرٹ پر پورا اترتے تھے انہیں فنڈ ڈی سی آفس کے ذریعے شفاف طریقے سے ایک تقریب میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔کمیٹی میں سینیٹر عثمان کاکڑ نے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے ڈیڑھ کروڑ عوام نے تاریخی اعتبار سے بیرونی قوتوں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں اور وطن عزیز کا دفاع کیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے جان و مال اور قبائلی علاقوں میں انفراسٹرکچرکو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے جس کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ فاٹا کے عوام کی مشکلات کو کم کیا جائے۔سینیٹر اورنگزیب اورکزئی نے کہا کہ انہوں نے پانچ سال مسلسل آواز اٹھائی ہماری عوام آج بھی امداد کی منتظر ہے۔سینیٹر مرزا آفریدی نے پاک افغان تجارت کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسائل کامرس کمیٹی میں بھی زیر غور ہیں اور اس پر متعلقہ اداروں سے جواب طلب کیا گیا ہے۔اور امید ہے کہ اس مسئلے کا مثبت حل نکال لیا جائے گا۔سینیٹر ہلال الرحمن نے مہمند او رباجوڑ کے آئی ڈی پیز کی مالی معاونت کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ کمیٹی آئی ڈی پیز کو فراہم کی گئی مالی معاونت پر کمیٹی کا اجلاس جلد طلب کرے گی جس میں تمام تر بحث، اب تک فراہم کی گئی مالی معاونت اور آئی ڈی پیز کی موجود صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا.








