آرٹیکل 62 (1) (f) سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس

0
34

سینیٹ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا بیرسٹر سید علی ظفر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں اجلاس ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر فاروق حامد نائیک، سینیٹر کامران مرتضیٰ اور سینیٹر رانا مقبول احمد نے شرکت کی۔ وزارت قانون و انصاف کے حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔

بدھ کو سینیٹر و بیرسٹر سید علی ظفر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں دو اہم آئینی ترامیم پر غور کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) سے متعلق پہلی ترمیم جس کے تحت اگر کوئی شخص باشعور، ایماندار اور امین نہیں ہے تو وہ رکن پارلیمنٹ بننے کا اہل نہیں ہے۔ تاہم ترمیم میں لفظ "امین” کو حذف کرنے کی تجویز دی گئی۔ بیرسٹر ظفر نے تجویز پیش کی کہ آرٹیکل 62(1)(f) کے الفاظ مبہم ہیں کیونکہ اس سے یہ طے کرنا انتہائی مشکل ہے اور مشورہ دیا کہ اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے۔ کمیٹی کے ارکان نے تجویز دی کہ اس بات پر بھی بحث ہونی چاہیے کہ اگر آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت کسی شخص کو نااہل قرار دیا جاتا ہے تو کیا اس کے لیئے کوئی وقت مقرر ہونا چاہیے؟

بیرسٹر ظفر نے نشاندہی کی کہ وقت کے تعین کا معاملہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں طے کر دیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص بے ایمان یعنی آمین نہیں پایا جاتا ہے تو وہ تاحیات رکنیت کے لیے نااہل ہو جائے گا۔ تاہم، بیرسٹر ظفر نے مزید نشاندہی کی کہ یہ پارلیمنٹ کے لیے ہے کہ وہ اس معاملے پر بحث کرے اور فیصلہ کرے کہ آیا وہ مستقبل کے معاملات کے لیے نااہلی کی مدت کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ چیئرمین نے وزارت قانون کو تحریری جواب دینے کی ہدایت کی کہ آیا وزارت قانون اس ترمیم کو قبول کر رہی ہے؟ اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی اپنے تاثرات دینے کی ہدایت کی۔

دوسری آئینی ترمیم آرٹیکل 142 سے متعلق تھی جسے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے پیش کیا اور کہا کہ وفاقی مقننہ کو سول پروسیجر کوڈ، کنٹریکٹ ایکٹ اور دیگر معاملات میں ترامیم کرنے کا اختیار دیا جائے۔ بیرسٹر ظفر نے نشاندہی کی کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا تعلق 18ویں ترمیم سے ہے لہٰذا یہ غور طلب ہے اور اسی مناسبت سے وزارت قانون کو تحریری طور پر بھی رائے دینے کی ہدایت کی گئی۔

سیکرٹری وزارت قانون و انصاف نے نشاندہی کی کہ وزارت کو کوئی اعتراض نہیں تاہم بیرسٹر ظفر نے ہدایت کی کہ وزارت تحریری طور پر اپنے تاثرات دے اور وجوہات بتائیں کہ ترمیم قابل قبول ہے یا نہیں؟ تاہم دیگر آئینی بلوں پر بحث موخر کر دی گئی تھی.

Leave a reply