سیم جینڈر سے جنسی کشش نفسیاتی مسئلہ.تحریر:ملک ارشد
آج کل کے دور میں بہت سے نوجوانوں میں ہم جنسیت (سیم جینڈر سے جنسی کشش) کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف فرد کی ذہنی حالت کا عکاس ہے بلکہ ہمارے معاشرتی اور ثقافتی ماحول سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے۔ بعض لوگ اس رجحان کو صرف ایک "ذہنی بیماری” یا "غلط سوچ” سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ایک پیچیدہ نفسیاتی اور سماجی مسئلہ ہے جسے مختلف زاویوں سے سمجھنا ضروری ہے۔
ہم جنسیت کی کشش کی نفسیات میں ایک اہم پہلو "دماغی تربیت” یا "مائنڈ سیٹنگ” ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان میں جنسی کشش موجود ہوتی ہے، اور یہ کشش مختلف لوگوں میں مختلف نوعیت کی ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات، فرد کا دماغ کسی ایک جینڈر (مخالف یا ہم جنس) کے لئے زیادہ کشش محسوس کرتا ہے۔اگر ہم نفسیاتی لحاظ سے بات کریں، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی فرد نے بچپن میں غیر صحت مند ماحول میں پرورش پائی ہو یا کسی خاص نوعیت کے ذہنی دباؤ یا چیلنجز کا سامنا کیا ہو، تو اس کا دماغ اس صورتحال کو ایک خاص طریقے سے پروسیس کرتا ہے۔ ایسے حالات میں، وہ ہم جنس سے جنسی کشش محسوس کرنے لگتا ہے۔اس کو ایک طرح سے "برین فیڈنگ” یا "مائنڈ سیٹنگ” کہا جا سکتا ہے جس کے ذریعے فرد اپنے ذہن میں غیر فطری رجحانات پیدا کرتا ہے۔ یہ دراصل ایک نفسیاتی اثر ہے، جس میں بچپن میں گزرے ہوئے تجربات اور معاشرتی تربیت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔
ہر انسان میں قدرتی طور پر دونوں جینڈر (مرد اور عورت) سے جنسی کشش محسوس کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ کشش معمول کی بات ہے اور ہر فرد کے اندر کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتی ہے۔ تاہم، جب ہم سیم جینڈر سے جنسی کشش کی بات کرتے ہیں، تو یہ ایک مختلف نوعیت کی کشش ہوتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہم سب اپنے والدین، بہن بھائیوں، اور قریبی رشتہ داروں کے ساتھ محبت اور عزت رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک نوع کی "کشش” ہوتی ہے، مگر اس کشش کی نوعیت اور اس کا اظہار مختلف ہوتا ہے۔ صحت مند نفسیاتی اور سماجی تربیت ہمیں بتاتی ہے کہ ہم جنس کے افراد کے ساتھ عزت و احترام کی بنیاد پر تعلق قائم کیا جائے، نہ کہ کسی جنسی جذبے کے طور پر۔
ہماری مذہبی تعلیمات اور اخلاقی تربیت بھی ہماری جنسی کشش کی سمت کو متعین کرتی ہیں۔ اسلام، مسیحیت، ہندومت اور دیگر مذاہب میں ہم جنسیت کو غیر فطری اور غلط سمجھا گیا ہے۔ مذہبی تعلیمات میں بتایا گیا ہے کہ مرد اور عورت کا رشتہ قدرتی اور فطری ہے، اور اسی میں انسان کی جسمانی اور روحانی سکونت ہے۔جب افراد مذہبی تربیت سے آراستہ ہوتے ہیں، تو ان کے ذہن میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بھی قسم کی ہم جنسیت کی طرف رغبت غیر فطری ہے اور اس سے بچنا چاہیے۔ یہ تربیت انسان کو اپنی جنسی کشش کو صحیح سمت میں متحرک کرنے میں مدد دیتی ہے اور اس کی زندگی میں سکون و سکونت کا باعث بنتی ہے۔
ایک اور اہم پہلو جو سیم جینڈر سے جنسی کشش کی طرف رجحان پیدا کر سکتا ہے، وہ بچپن کے زمانے میں ہونے والے نفسیاتی ٹراما (چائلڈ ایج ٹراما) ہیں۔ اگر بچپن میں کسی فرد کو مخالف جینڈر کی طرف سے کوئی منفی تجربہ، تشویش یا جسمانی یا ذہنی اذیت کا سامنا ہوتا ہے، تو اس کا دماغ اس تجربے کو اپنی جنسی کشش کے طور پر پروسیس کر سکتا ہے۔اس کا اثر بعد کی زندگی پر پڑتا ہے، اور فرد سیم جینڈر کی طرف اپنی جنسی کشش محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس نفسیاتی مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ چائلڈ ایج ٹراما کو درست طریقے سے علاج کیا جائے، تاکہ دماغ کے کرپٹ سگنلز دوبارہ نیچرل پیٹرن پر آ جائیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر شخص کا دماغ اور تربیت مختلف ہوتی ہے۔ اگر کسی شخص کو سیم جینڈر کی طرف کشش محسوس ہوتی ہے، تو یہ اس کے ذہنی اور نفسیاتی پس منظر پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ ذہنی بیماری یا گندی سوچ نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک پیچیدہ نفسیاتی اور سماجی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ہمیں اپنے ذہنوں میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ احترام اور محبت کے جذبات ہر نوع کے رشتہ میں موجود ہوتے ہیں، چاہے وہ مخالف جینڈر ہو یا ہم جنس۔ یہ صرف تربیت اور ماحول پر منحصر ہے کہ ہم اس کشش کو کس طرح سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار کس طرح کرتے ہیں۔
سیم جینڈر سے جنسی کشش ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جسے صرف ذہنی بیماری کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ نفسیاتی، سماجی اور مذہبی عوامل سے متاثر ہو سکتا ہے، اور اس کے حل کے لیے بہتر تربیت، ذہنی سکون اور مثبت ماحول کی ضرورت ہے۔ اگر کسی فرد میں اس کشش کا اظہار ہو رہا ہو، تو اس کو صحیح طریقے سے سمجھنا اور اس کا علاج کرنا ضروری ہے تاکہ وہ قدرتی، فطری اور صحت مند ذہنی حالت کی طرف واپس آ سکے۔آخرکار، ہمارے ذہنوں کو قدرتی اور صحت مند پیٹرن کے ساتھ تربیت دینا ہماری زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے اور ہمیں سکون فراہم کر سکتا ہے۔