شب معراج کے فضائل و برکات ،تحریر از فیاض جماعتی (لالہ موسی)

0
62

شبِ معراج :ربِ قدوس کی ذاتِ پاک نے جب اپنے حبیبﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا تو یہ اعلان بھی فرما دیا کہ”اے ایمان والو!اگر مجھے اپنے محبوبﷺ کو اس دنیا میں جلوہ گر نہ کرنا ہوتا تو نہ اس دنیا کو وجود میں لاتا اور نہ ہی اپنی”ربوبیت“کو ظاہر کرتا کہ میں رب ہوں۔“تمام انبیاۓ کرام معجزے لیکر آۓ مگر رحمتِﷺ سراپا معجزہ بن کر اس دنیا میں تشریف لاۓ،آپﷺ کے فضاٸل و برکات،جمالات و کمالات اور روشن ترین معجزات و کرامات تو بیشمار ہیں،مگر معراج وہ فضیلت ہے جو ربِ کاٸنات نے کسی اور نبی اور رسول کو نہیں بخشی،یہ تحفہ ٕ خاص سے صرف آپ ہی کو سرفراز کیا گیا۔

ارشادِ باری تعالٰی ہے کہ”پاک ہے وہ ذات اپنے خاص بندے کو جو لے گٸ رات میں مسجدِحرام سے مسجدِ اقصٰی تک،وہ مسجد جسکے اردگرد ہم نے برکت فرمادی تاکہ ہم اسے دکھاٸیں اپنی نشانیاں،بیشک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔“اگرچہ عام طور پر ہادی ٕ عالمﷺ کے اس مبارک سفر یعنی مسجدِحرام سے مسجدِاقصٰی اور وہاں سے آسمانوں اور لامکاں تک تشریف لے جانے کو معراج شریف کہا جاتا ہے،لیکن محدثین،مفسرین اور علماۓ کرام کی اصطلاح میں جنابِ رسولِ عربیﷺ کا مسجدِاحرام سے مسجدِاقصٰی تک تشریف لے جانا”اسرا ٕ“کہلاتا ہے،کیوں کہ قرآن پاک میں پروردگارِ عالم عزوجل نے اس لفظ کو اسرا ٕ سے تعبیر فرمایا ہے،اور مسجدِاقصٰی سے آسمانوں کی طرف سفر کرنا”معراج“کہلاتا ہے۔

ہجرت سے تقریباً پانچ سال قبل رجب کی 27ویں شب کو حضورِاقدسﷺ اپنی چچازاد ہمشیرہ امِ ہانیؓ کے گھر تشریف فرما رہے تھے کہ جبرٸیل علیہ السلام پچاس ہزار فرشتوں کی جماعت اور براق کیلٸے حاضر خدمت ہوتے ہیں،حضورﷺ محوِاستراحت ہیں،جبرٸیلِ امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا تو بے ادبی ہو گی۔اسی اثنا ٕ میں پروردگارِ عالم نے فرمایا کہ جبرٸیل!میرے حبیبﷺ کے قدم مبارک چوم لے۔جبرٸیلِ امین نے اپنی کافوری آنکھوں اور ہونٹوں سے رسولِ عربیﷺ کے قدموں کو بوسہ دیا۔آپﷺ بیدار ہوۓ تو جبرٸیل نے عرض کی:”اللّہ تعالٰی آپﷺ سے ملاقات کا مشتاق ہے۔“پھر جبرٸیلِ امین نے سواری(براق)پیش کی۔آقاۓ دو جہاںﷺ نے براق پر سوار ہونے سے قبل ذرا توقف فرمایا تو جبرٸیلِ امین نے عرض کی”یارسول اللّہﷺ اس توقف کا سبب کیا ہے؟“آپﷺ نے فرمایا کہ ”سوچ رہا ہوں کہ آج میرے اوپر نوازشات و عنایات کا خصوصی وقت ہے،ملاٸکہ میری خدمت کیلٸے دست بستہ کھڑے ہیں براق میری سواری کیلۓ موجود ہے۔حشر کے دن میری امت کا کیا حال ہوگا؟پل صراط جو پچاس ہزار سال کی مسافت ہے،بال سے باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے اور ہر ایک کو اس سے گزرنا ہے،میری اُمت اس سفر کو کیسے طے کریگی؟“اُسی وقت اللّہ رب العزت کی طرف سے بشارت سنا دی گٸی:”اے محبوبﷺ آپ اپنی اُمت کی فکر ہر گز نہ کیجیے،ہم آپ کی اُمت کو پل صراط سے یوں گزاریں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا۔“

اِس واضح بشارت کے بعد حضورﷺ براق پر سوار ہوۓ،جبرٸیلِ امین نے رکاب تھامی،معراج کے موقع پر آپ کے استقبال کیلٸے کاٸنات کے پورے نظام کو روک دیا گیا،وقت کو ٹھہرا دیا گیا،چاروں اطراف نور پھیل گیا،آسمانوں کے دریچے کھول دٸیے گٸے،تاکہ ملا ٕاعلٰی کی دنیا بھی حبیبِ خدا کے دیدار سے مشرف ہو سکے۔آپﷺ کی سواری نہایت شان و شوکت سے ملاٸکہ کے جلوس میں مسجدِ حرام سے نکلی۔بیت المقدس میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرتِ عیسٰی تک تمام انبیا ٕ کرام صفیں باندھ کر کھڑے انتظار کر رہے تھے۔مصلٰی خالی تھا،نبیوں کے سردار تاجدارِانبیا ٕ حضرت محمد مصطفٰیﷺ جلوہ افروز ہوۓ۔جبرٸیلِ امین نے اذان دی،اور تمام انبیا ۓ کرام نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔مسجدِاقصٰی سے فراغت کے بعد بلندی کا سفر شروع ہوا۔پہلے آسمان پر حضرت آدم،دوسرے پر حضرتِ یحییٰ اور حضرتِ عیسٰی نے معراج کی مبارکباد دی۔تیسرےآسمان پر حضرت یوسف سے،پانچویں پر حضرت ہارون،چھٹے پر حضرتِ موسٰی،اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مبارکبادیں وصول کرتے ہوۓ سدرةالمنتہٰی تک پہنچ گٸے،یہاں حضرت جبرٸیلِ امین نے عرض کی:یارسول اللّہ اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھ جاٶں تو اللّہ تعالٰی کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلا کر رکھ دیں گے،یہ میرا مقامِ انتہا ہے۔“آپﷺ نے فرمایا کہ”میں اکیلا روانہ ہوا اور بہت سے حجابات طے کٸے،یہاں تک کہ ستر ہزار حجابوں سے گزرے،ہر ایک حجاب کی موٹاٸ پانچ سو برس کی راہ تھی اور دونوں حجابوں کا فاصلہ پانچ سو برس تھا۔“

معراج شریف کا یہی وہ موقع تھا کہ جب ربِّ کریم نے آپﷺ کو آپکی اُمت کیلٸے”نماز“کا تحفہ عطا کیا۔امت کی خوش قسمتی دیکھٸے کہ”نماز“کو مومن کی معراج قرار دیا ہے۔شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ”اللّہ تعالٰی نے شب معراج کے موقع پر حضورِاکرمﷺ کو تین طرح کے علوم عطا فرماۓ،ایک وہ علم تھا کہ جسکے متعلق ارشاد ہے کہ یہ آپ کیلٸے خاص ہے۔آپ کے علاوہ کوٸی اسکا متحمل نہیں ہو سکتا،دوسرا علم ایسا عطا ہوا کہ جسکے متعلق اختیار دیا گیا سجے مستحق سمجھیں جتنا چاہیں عطا کر دیں،تیسرا علم وہ ہے کہ جسکو کاٸنات کیلٸے عام فرمایا،اس حصے کا یہ عالم ہے زندگی کا کو شعبہ حضورﷺ نے تشنہٕ تکمیل نہیں چھوڑا۔جب رحمتِ عالمﷺ معراج کے مبارک سفر سے واپس آۓ تو دروازے کی زنجیر(کنڈی)ہل رہی تھی،بستر گرم تھا اور وضو کا پانی بہ رہا تھا۔

ابو جہل نے یہ واقع سنا تو وہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پاس پہنچا اور اُن سے اِس واقع کی تصدیق چاہی۔یارِغار سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے کہا:”اگر یہ سب آپﷺ نے فرمایا ہے تو اسکے حق ہونے میں شک نہیں،آپ نے سچ فرمایا ہے۔“

آپﷺ نے اپنے اس سفر کے حوالے سے دیگر نشانیوں کیساتھ ایک قافلے کے بارے میں بتایا کہ اس قافلے کے آگے بھورے رنگ کا ایک اونٹ ہے جس پر دھاری دار بوریاں لدی ہوٸ ہیں اور وہ سورج نکلتے ہی مکہ پہنچ جاۓ گا،کفار قریش بھاگتے ہوۓ گھاٹی پر پہنچے اور اونٹ کا انتظار کرنے لگے۔پھر وہ قافلہ آگیا اور اس میں وہ تمام نشانیاں موجود تھیں جو آپ نے فرماٸی تھیں،اس موقع پر کچھ نے اسلام قبول کر لیا اور کچھ نے نہ کیا۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:”جو شخص رجب کی 27 ویں رات کو زندہ رکھے اطاعتِ الٰہی میں،تو نہیں مرے گا اسکا دل،جبکہ مرجاٸیں گے دل اور بیہوش ہو جاٸیں گے،اس شخص کی دُعاٸیں قبول ہوں گی خدا کے ہاں،اُس کی قبر کشادہ کر دی جاۓ گی اور بہشت کے دروازے اُس میں کھولے جاٸیں گے۔

ہادٸ عالمﷺ کا فرمانِ مقدس ہے کہ”جو شخص معراج کی رات کو چھ رکعت نفل دو دو رکعت کی نیت سے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سات مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے تو اللّہ تعالٰی اسکے ستر ہزار گناہ بخش دے گا اور ہر رکعت کے بدلے میں ستاٸیس برس کی عبادت لکھ دے گا اور ہر رکعت کے بدلے میں ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا کرے گا اور وہ شخص جنت میں آسانی کیساتھ رہے گا۔“

دُعا ہے کہ اللّہ تعالٰی کی پاک ذات ہم سب کو شبِ معراج کی تمام تر سعادتیں،رحمتیں اور برکتیں اپنے دامن میں سمیٹنے کی توفیق و ہمت عطا فرماۓ اور ہمارے دلوں کو عشقِ مصطفٰےﷺ سے معمور فرماۓ،کہ یہی زندگی کا اصل حاصل ہے۔*

شب معراج تحریر از فیاض جماعتی (لالہ موسی)

Leave a reply