بقیتہ السلف شیخ الحدیث استاذ العلماء مصنف کتب کثیرہ۔حضرت مولانا رحمت اللہ ربانی راقم : رانا محمد عثمان حقانی بن قاری احسان الحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ

0
57

بقیتہ السلف شیخ الحدیث استاذ العلماء مصنف کتب کثیرہ۔حضرت مولانا رحمت اللہ ربانی
راقم : رانا محمد عثمان حقانی بن قاری احسان الحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ

دل بھر جاتا ہے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں جب ان کے نام کے آگے رحمتہ اللہ علیہ لکھنا پڑتا ہے۔
جب میری شادی ہوئی تو وہ ہمارے گھر تشریف فرما تھے کھانا کھانے کے بعد انہوں نے قمیص کے سامنے کا بٹن کھولا اندر ہاتھ داخل کیا اور کچھ پیسے نکال کر مجھے تھما دئیے میں ضبط نہ کر پایا اور آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے میرے والد بزرگوار محترم قاری احسان الحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ بھی پاس ہی موجود تھے ان سے آہستہ سے پوچھنے لگے یہ کیوں روتا ہے انہیں بات کا علم تھا فرمانے لگے اس کی بڑی خواہش تھی کہ میں اپنی بارات کے ساتھ اپنے دادا محترم عنایت اللہ خادم رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر جاؤں گا آج وہ اس دنیا میں موجود نہیں یہ آپ کو اپنے دادا کے متبادل کے طور پر دیکھتا ہے ۔اس لئے رو دیا ۔
پوری بات سن کر مولانا اٹھے مجھے تھپکی دی اور نم آنکھوں اور کانپتی آواز کے ساتھ فرمانے لگے
پتر میں تیرا دادا ہی آں تے تیرا دادا تیری بارات نال صبح جائے گا۔ان شاءاللہ۔
وقت گزرتا گیا اور پھر وہ کھڑی آن پہنچی جب ہمارے والد بزرگوار بھی اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے تب بہت سارے شفیق ہاتھوں کے درمیان وہ ہاتھ بھی میرے سر پر سایہ فگن ہوا جس ہاتھ کی شفقت سے ہم آج محروم ہو گئے ہیں۔جب بھی ملاقات کرتے بڑا حوصلہ بڑھاتے لمبی دعائیں دیا کرتے ۔ حال احوال پوچھتے نصیحتیں کرتے اور آخر میں اپنے لئے دعا کی درخواست ضرور کیا کرتے کم و بیش 12 سال مسلسل کمر کی تکلیف میں مبتلا رہے لیکن دعوت دین کا کام ہمیشہ اپنی زمہ داری سمجھتے تھے کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو جب تک اس کی تسلی نہ ہو جاتی اس کو حق بات سمجھاتے کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہیں کرتے تھے ۔
جمعہ کے دن میری خصوصی ڈیوٹی لگائی کہ جمعہ کی آذان تم نے کہنی ہے کبھی لیٹ ہوتا اور کوئی دوسرا جمعہ کی آذان کہ دیتا تو جمعہ کے بعد بلا کر کہا کرتے
2منٹ پہلے آ جایا کر پتر ۔
جب آنکھیں بند کرکے کوئی مسئلہ شروع کرتے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بیٹھے ہوئے تو یوں محسوس ہوتا کہ ان کے اندر علم کا ٹھاٹھیں مارتا کوئی سمندر ہے جو ابلنے کو بے قرار ہے پھر وہ دنیا وما فیہا سے بے پرواہ ہو کر اس مسئلہ پر بڑی ضخیم علمی گفتگو فرمایا کرتے اور عالم یہ ہوتا تھا کہ میرے بزرگوار چچا محترم مشتاق احمد شیرانی حفظہ اللہ تعالیٰ مجھے اشارہ کرتے کہ جمعہ کا ٹائم اوپر ہو گیا ہے مولانا کو بتاؤ پھر میں بڑی ہمت جمع کرتے ہوئے جب ان کے پاؤں کو ہاتھ لگاتا تو وہ جیسے چونک کر کھڑی کی طرف دیکھتے اور سمجھ جاتے کہ ٹائم زیادہ ہو گیا ہے ۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے اندر ابلنے والے علم کے بحر بے قراں کو قابو کرتے ہوئے اپنی بات کا اختتام کر دیتے ۔
ان کی زندگی جہد مسلسل تھی دین کیلئے ان کی کوششیں کاوشیں بے مثال تھیں ان کے زندگی کے جس بھی پہلو پر لکھنا شروع کروں تو اپنے آپ میں پوری کتاب ثابت ہو
میں کسی کام سے لاہور سے باہر تھا جب چھوٹے بھائی حافظ ذیشان کا فون آیا
مولانا رحمت اللہ ربانی
فی ذمۃ اللہ۔
سننے کے بعد میں بہت دکھی ہوا ۔
جمعہ والے دن جمعہ سے پہلے ان کا جنازہ جب اٹھا تو ہر آنکھ اشک بار تھی ۔
الشیخ مولانا امیر حمزہ حفظ اللہ نے انکا جنازہ پڑھایا میں نے ان کے ساتھ کھڑے ہو کر جنازہ پڑھا(جگہ کی کم یابی کی بنا پر)عجیب منظر تھا جنازگاہ باوجود لاک ڈاؤن کے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور دوران جنازہ مولانا امیر حمزہ صاحب سمیت سب کی ہچکی بندھی ہوئی تھی اشک رواں تھے اس عظیم انسان کے لیے رب تعالیٰ کی طرف ہاتھ باندھے دعائیں مانگتے جا رہے تھے اور روتے جا رہے تھے ۔
انکو لحد میں انکے بڑے صاحبزادے اور میرے پھوپھا محترم طاہر ربانی صاحب ۔
چھوٹے صاحبزادے مولانا طیب مسعود ربانی اور راقم نے خود اتارا ۔
میں نے تب جی بھر کر اپنے بزرگ مولانا رحمت اللہ ربانی رحمۃ اللہ علیہ۔
کی طرف دیکھا کہ یہ چہرہ اب دوبارہ نظر نہیں آئے گا اور ان کی لحد کو بند کر دیا ۔
اللہ پاک مولانا رحمت اللہ ربانی کی مغفرت فرمائے ۔
انکے درجات بلند فرمائے۔
انکی قبر کو تاحد نگاہ وسیع فرمائے۔ انکی قبر کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنائے۔
انکی نیکیوں کو قبول فرمائے اور اس اضافہ فرمائے۔
انکی غلطیوں کوتاہیوں کو درگزر فرمائے اور انہیں نیکیوں میں تبدیل فرمائے ۔
انہیں اعلی علیین میں انبیاء اتقیاء شہداء صلحاء اولیاء کے درمیان جگہ عطاء فرمائے۔
سارا دن وہ جنت سے اپنا رزق کھائیں اور رات کو عرش الٰہی تلے لٹکتی قندیلوں میں آرام کریں۔

پیارے بابا جان، "شیخ الحدیث مولانا رحمت اللہ ربانی” کی حیات کے چند پہلو از قلم:مسز ناصر ہاشمی (بنت ربانی )

Leave a reply