شیخی خورے کی سزا
ایک آدمی کو اتفاق سے دنبے کی چربی کا ایک ٹکڑا مل گیا اس نے یہ حرکت کی کہ روازنہ صبح اٹھتے ہی اس سے اپنی مونچھیں چکنی کر کے اسے تاؤ دیتا پھر اکڑتا ہوا امیروں اور دولتمندوں کی صحبت میں جا بیٹھتا سینہ پھلا کر اور مونچھوں کو تاؤ دے دے کر کہتا کہ واہ آج تو بڑے مرغن کھانے کھا کھا کر مزہ آگیا وہ لوگ اس کی چکنی مونچھیں دیکھتے اور سمجھتے کہ واقعی سچ کہتا ہے یہ یوں اپنی امیری کا ڈھنڈورا پیٹتا لیکن اس کا معدہ اندر سے مونچھوں پر لعن طعن کرتا اور اللہ سے دعا کرتا کہ اے اللہ اس شیخی خورے کی قلعہ کھول دے تاکہ میری بھوک دور ہو آخر کار اللہ نے اس کے معدے کی فریاد سن لی ایک روز کوئی فاقہ زدہ بلی اس کے مکان میں گھس آئی سامنے ہی طاقچے پر دنبے کی چربی کا وہ ٹکڑا نظر آیا چھلانگ لگا کر بلی نے وہ ٹکڑا منہ میں دبایا اور بھاگی گھر والوں نے ہر چند بلی کا پیچھا کیا لیکن وہ کب ہاتھ آتی تھی بچے کو معلام تھا کہ اب اس کا باپ کہاں ہو گا سیدھا دولت مندوں کی محفل میں پہنچا جہاں اس کا باپ بیٹھا چکنی چکنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا بچے نے دیکھتے ہی باپ سے کہا ابا غضب ہو گیا دنبے کی چربی کا وہ ٹکڑا جس سے آپ اپنے ہونٹ اور مونچھیں چکنی کیا کرتے تھے بلی اٹھا کر لے بھاگی ہم سب نے مل کر اسے پکڑنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ ہاتھ نہ آئی بچے کے منہ سے یہ بات سنتے ہی شیخی خور کا رنگ اڑ گیا سکتے کے عالم میں بیٹھے کا بیٹھا رہ گیا بھری محفل میں ایسی رسوائی ہوئی کہ بیان سے باہر گردن اٹھا کر کسی سے نظریں ملانے کی ہمت نہ ہوئی اس کا یہ حال دیکھ کر اہل محفل کو بڑا تعجب ہوا بعض بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑے لیکن وہ دولت مند بھی اعلی ظرف رکھتے تھے کسی نے اسے کچھ نہ کہا سب نے اس شیخی خورے پر ترس کھایا اس کی ندامت دور کرنے کے لئے اس کی دعوتیں کر کر کے اس کا پیٹ بھرنے لگے جب اس نے اہل فضل و کرم کے اس اونچے برتاؤ سے سچائی کی لذت پائی تب شیخی ترک کر کے سچائی کا غلام بن گیا اے عزیز غور سے سن اور یاد رکھ کہ سچائی اولیاء اللہ کا شعار ہے اس کے برعکس فریبیوں کی ڈھال بے شرمی اور شیخی خوری ہے یہ لوگ خداکی مخلوق کواپنے جال میں پھانسنے کے لئے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم بالکل بے فکر اور خوش ہیں حالانکہ ان کا باطن سرا سر مضطرب اور پریشان رہتا ہے کسی پل چین نہیں ملتا وہ اس دنیا میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی انہیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے پس تو سچائی کو اختیار کرتاکہ دونوں جہانوں میں نیک نام رہے
( مولانا رومی رحمۃ اللہ)