سیاسی جماعتیں ویسے تو ایک دوسرے کے دشمن مگر سودی نظام پر ایک ہیں. سراج الحق

0
43

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں جنگ کررہی ہیں مگر سودی نظام پر ایک ہیں۔

راولپنڈی میں سودی نظام کے خلاف منعقدہ علما مشائخ کنونشن سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سود سے متعلق اپیل واپس نہیں لیتی تو سپریم کورٹ اسے مسترد کر دے، انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو پھر ہم وزیراعظم ہاؤس اور سپریم کورٹ کے سامنے ڈیرے ڈال دیں گے۔ تاکہ ان پر اس بارے دباؤ ڈالا جائے اور اپنا ریکارڈ جمع کرایا جائے.

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ: حکمران سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فضائی دورے کررہے ہیں لیکن نیچے نہیں اتر رہے۔ باہر سے پیسہ پہنچنے پر سب ایم این ایز اور وزرا ہر بستی میں دکھائی دیں گے۔ 13 جماعتی اتحاد پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی یہ سب حکومت میں ہیں، یہ سب ایک دوسرے سے جنگ کررہے ہیں لیکن سودی نظام پر ایک ہیں۔انگریز کے نظام کے تسلسل کے لیے یہ جماعتیں متحد ہیں۔ اور اس بارے میں ان کے مفاد ایک ہیں کیونکہ یہ ہر بات پر ایک دوسرے کی مخالفت کرتے مگر اس بارے میں کیوں ایک اور کیوں آواز نہیں اٹھاتے.

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے،پاکستان میں آئین کے تحت سود پر پابندی ہونی چاہیے۔ شرعی عدالت نے 2 مرتبہ سودی نظام کے خلاف فیصلہ دیا لیکن اشرافیہ پھر بھی اسی سودی نظام کو مسلط رکھنا چاہتی ہے۔ ان حکومتوں کا ساتھ دینے والا سودی نظام کو تقویت دینے والا ہوگا۔

واضح رہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام معیشت کیخلاف دائر مقدمات کا 20 سال بعد فیصلہ صادر کرتے ہوئے سود کیلئے سہولت کاری کرنیوالے تمام قوانین اور انکی شقوں کو غیرشرعی قرار دے دیا تھا اور حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ پانچ سال کے اندر اندر سودی نظام مکمل طور پر ختم کر دے۔ 320 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت کے تین رکنی بنچ نے قرار دیا تھا کہ سود سے پاک بنکنگ قابل عمل بنکاری ہے۔ عدالت حکومت کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتی کہ سود سے پاک بنکاری قابل عمل نظام نہیں۔ فاضل عدالت نے قرار دیا تھا کہ سٹیٹ بنک کا قانون بھی سود سے پاک بنکاری کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہوگی۔ 30 فیصد بنکاری پہلے ہی اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی ہے۔ سود کو ختم کرنا مذہبی اور آئینی فریضہ ہے۔

Leave a reply