آپ کسی بھی پارٹی سے جُڑے رہنا چاہتے ہیں، یہ آپ کا حق ہے۔ آپ کس لیڈر کی اُلفت میں مبتلاء ہیں یہ آپ کی مرضی ہے۔ آپ سب ہی یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں امن و امان،ترقی ، تعلیم،علاج معالجہ جان اور عزت کی حفاظت اور روزگار اور کاروبار کے وافر مواقع ہونے چاہیئں ۔ خاص کرغریب نوجوان بلدیات ہو یا صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کی سیڑھی کی طرف اپنا قدم رکھ سکتے ہیں؟
ذرا سوچئے کہ یہ سب کچھ حاصل کرنے لے لیے کیا ضروری ہے؟
ایک دوسرے کی کردارکُشی؟
ان بڑے اورمقامی لیڈروں کے پیچھے جو آپ کو آگے بڑھنے کا موقع تک فراہم نہیں کرتے،
آپس میں تکرار ، گالی گفتاری ، یا الزام تراشی؟
کیا ایسا کرنے سے مذکورہ اہداف حاصل پورے ہو سکتے ہیں؟

سوچئے اور ایک با عزت سیاسی کارکن بنیں،ورنہ ذرا سا پیچھے مُڑ کر دیکھئے،آپ سے پہلے لاکھوں کارکنان سالہا سال اسی بے خبری اور گھٹیا پن میں مبتلا رہ کر ملک اور قوم کے لیئے کچھ بھی نہیں اور اپنے لیے ، تشدد ، مار ، جیلیں اور معاشی نقصان کما چکے مگر بات وہیں کی وہیں رہی۔

سوچئے کہ ماضی میں سیاسی کارکنان کی بے سمت اور بے مقصد سیاسی حرکات کا کیا نتیجہ نکلا؟
آج بھی وہی احتجاج ، وہی جلسے وہی باتیں وہی الزامات ، وہی احمقانہ سوچ !
ذرا سوچئے اس بے مقصد سیاسی جدوجہد کا آئندہ کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
آپ ضرور اپنے اپنے ہیرو کی پوجا کیجئے مگر اُس کے کہنے پر دوسرے پاکستانیوں کو ولن نہ سمجھیئے!
اپنے اپنے سیاسی جماعتوں کے ہیروز اور مقامی لیڈران سے سوال کیجئے کہ وہ ساری چیزیں اور سہولیات جو وہ خود رکھتے ہیں ہمیں کیسے دلائیں گے؟

اگر وہ آپ کے سوال کے جواب میں اپنے مخالف کی کردار کُشی پر اکساتے ہیں تو یقین مانیں کہ وہ جھُوٹے ہیں اور آپ کے کندھوں پر بیٹھ کر مراعات یافتہ طبقے میں تو شامل ہو سکتے ہیں۔
آپ کو کچھ بھی نہیں لے کر دے سکتے!!!!

Shares: