ستاروں کے راز تحریر: ڈاکٹر راحیل احمد

خالق کائنات نے جہاں اس فرش أرضی کو پہاڑوں، ندی نالوں ، گنگناتے جھرنوں اور سبز پوش وادیوں سے سجھایا ہے وہاں آسمان ارضی کو بھی ٹمٹماتے چراغوں سے حسن بخشا ہے اور جب چشم انسانی اس خوبصورت نظارے سے لطف اندوز ہونے کیلئے سوئے گردوں جاتی ہے تو اس سے آسمان کی وسعتوں میں پھیلی ستاروں کی یہ دنیا اپنے حسن کا خراج وصول کیئے بغیر نہیں رہ سکتی۔

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت نے کوئی بھی چیز بے مقصد یا بے معنی پیدا نہیں کی تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ اتنی بڑی کائنات، یہ لاتعداد روشن چراغ اپنے وجود کا کوئی مقصد نہ رکھتے ہوں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قدیم زمانے کا انسان اپنی منزلوں کا پتہ لگانے کیلئے ستاروں سے مدد لیا کرتا تھا گویا قدرت نے ان چھوٹے چھوٹے کمکموں کو سفر میں انسانی رہنمائی کا منصب بھی سونپا۔ اس کے علاوہ سورة ملک میں اللہ تعالٰی کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے سجایا اور ہم ان کے ذریعے شیاطین کو دفعہ کرتے ہیں جن کیلئے المناک عذاب تیار ہے۔ ایک معتبر رویات کے مطابق گروہ شیاطین آسمان کا حال معلوم کرنے کیلئے وہاں تک رسائی کی کوشش کیا کرتے تھے جن کو روکنے کیلئے ان ستاروں کو ان کی مار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ ” کوئی نہیں جو میرے علم کا احاطہ کرسکے مگر جتنا میں چاہوں ” 

ستاروں کی دنیا پر اگر غوروفکر کیا جائے تو جدید سائنس کے مطابق ان کی تعداد کے بارے میں حتمی طور پر تو ممکن نہیں البتہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کی تعداد دنیا کے تمام ساحلوں پر پڑی ریت کے ذرات سے بھی زیادہ ہے جبکہ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق ان میں سے بعض ستارے ایسے ہیں جو زمین کے برابر یا اس سے کم وجود رکھتے ہیں لیکن بہت اے ستارے ایسے بھی ہیں جن کے ایک کونے میں ہماری لاکھوں زمینیں سما سکتی ہیں اور اگر ان حقائق کی روشنی میں کائنات کی وسعتوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے تو عقل انسانی پہلے قدم پر ہی سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہوجائے۔

رب کائنات سورة واقع میں فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ قسم ہے ستاروں کے ڈوبنے کی مقام کی اور اگر تم سمجھ سکو تو یہ بہت ہی بڑی قسم ہے جب کہ سائنس نے آج قدرت کے اس راز کی نقاب کشائی کرتے ہوئے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ستارے ٹوٹ کر بلیک ہول میں گرتے ہیں اور پھر اس کی وسعتوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ اب اس بلیک ہول کی وسعت پر غور کریں کہ اس حجم کتنا ہوگا جس میں سورج اور اس سے بھی بڑے بڑے ستارے سما جائیں اور ان کے وجود کا احساس تک ختم ہوجائے۔ لیکن بات یہاں تک بھی ختم نہیں ہوتئ اکیسویں صدی کے انکشافات کے مطابق کائنات میں ایسے بےشمار بلیک ہول موجود ہیں جو ٹوٹے ہوئے ستاروں کا آخری مسکن کا کام کررہے ہیں۔

اسلامی عقائد کے مطابق علم نجوم کے اندازوں کی تصدیق کو کفر سے تشبیہ دی گئی ہے لیکن اگر اس میں سے غائب اور مستقبل بینی کو نکال دیا جائے تو ستاروں کا علم بھی قدرت الہی کی تصدیق اور اس کی حمد و ثناء سے آزاد نہیں رہ سکتا کیونکہ اللہ تعالٰی کی کوئی بھی تخلیق ایسی نہیں جو نہ صرف اپنے اندر مقصدیت نہیں رکھتی بلکہ اس کائنات کے زرے سے لے کر بڑے بڑے إجرام فلکی تک اس کی شہادت دے رہی ہیں۔

@WsiKaSlam

Comments are closed.