قائد حریت سید علی گیلانی صاحب کی کال پر آنے والے صحافیوں کو پریس کانفرنس کی کوریج سے روک دیا گیا.
.
آج صبح دس بجے سے ہی سید علی گیلانی صاحب کے گھر کے باہر تقریباً 35 صحافی جمع تھے. آزادی اظہار رائے کے حق کو دباتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کی پولیس نے صحافیوں کو نہ صرف گھر میں داخل ہونے سے روک دیا بلکہ ان کے گھر کے قریب کھڑے ہونے سے بھی منع کر دیا. ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال یہ ہے کہ پوری دنیا کے میڈیا کی آزادی کو صلب کر لیا ہے. پانچ اگست کے بعد کسی بھی صھافی کو کسی ایک حریت پسند لیڈر کی کوریج کی اجازت نہیں. مقبوضہ جموں کشمیر کی پولیس کے آفیسر کا کہنا ہے کہ سیکشن 144 کے تحت کسی لیڈر کی میڈیا کوریج کو بند کیا گیا. ایک طرف تو غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر آئینی اقدامات کے ذریعے کشمیریوں کی آواز دبائی جا رہی ہے. دوسری طرف بھارت کی آئین میں ایسی غیر انسانی اور غیر جمہوری شقیں موجود ہیں جو ظلم کا ساتھ دیتی ہیں. بھارت جہاں کشمیریوں کی نسل کشی میں ملوث ہے وہیں کشمیریوں کی آواز دبانے میں بھی پیش پیش ہے.
اب سوال یہ ہے کہ عالمی ادارے کیا اس غیر جمہوری اقدام پر بھارت سے سوال کریں گے؟ کیا آزادی اظہار رائے کے علمبردار بھارت کی اس ریاستی ہٹ دھرمی پر بات کریں گے؟
نعمان علی ہاشم