عالمی یومِ خواتین پر ہمیں ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کی جانب سے ادب کے شعبے میں ” سوچ عورت ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ اس ایوارڈ کے لیے ہم خدا، والدین، شوہر، بچوں اور آپ سب کے شکر گزار ہیں۔ ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کا بے حد شکریہ۔
جب ہم نے لکھنا آغاز کیا تو بس ایک آگ تھی جو خود بخود کاغذ پر الفاظ کی صورت اختیار کیا کرتی تھی۔ جب ادراک ہوا کہ ہم لکھ رہے ہیں تو بس ایک دھن تھی کہ اس دنیا کو خوب صورت دیکھنے کا ہمارا خواب پورا ہو جائے۔ جب احساس ہوا کہ لوگ ہمیں پڑھ رہے ہیں تو خوشی کے بجائے فکر لاحق ہوئی کہ لکھنا تو بڑی ذمہ داری کا کام ہے کیوں کہ اب یہ ذاتی معاملہ نہیں رہا۔
ہمیں خوشی ہے تو اس بات کی کہ ہم نے دنیا کو اپنی نظروں سے دیکھا، اپنے دل سے محسوس کیا، اپنے ذہن سے سوچا اور جو درست سمجھا وہی لکھا۔ ہم نے اپنی تحریر میں فکری پر مائیگی، مطالعاتی بصیرت اور مشاہدے کی گہرائی وغیرہ کا دعویٰ کبھی نہیں کیا تاہم تمام تر انکسار کے باوجود یہ اصرار ہم نے ہمیشہ کیا ہے کہ جذبات و احساسات اور خیالات کی سچائی اور سنجیدگی کو ہم نے ہمیشہ فن کی بنیاد جانا ہے۔ ہماری سوچ لوگوں کو شعور، ہمت، طاقت اور مسرت دے رہی ہے یہ احساس ہمارے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔
ہم نے شہرت کی کبھی نہ خواہش کی، نہ کوشش اس لیے اس کی قیمت بھی نہیں چکانی پڑی لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھنے، اپنے دل سے محسوس کرنے، اپنے ذہن سے سوچنے اور حق بات کہنے اور لکھنے کی قیمت ابتدا سے چکائی اور آج تک چکاتے رہتے ہیں لیکن ہمیں اس پر کوئی افسوس یا پچھتاوا نہیں بلکہ گہری طمانیت ہے۔
آپ سب کا بے حد شکریہ کہ آپ ہمیں پڑھتے ہیں، سنتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ اگر کوئی ناپسند کرتا ہے تو اس کا بھی شکریہ کہ توجہ تو اس کی بھی ہماری تحریر پر ہے۔
اور ہاں! یہ ایوارڈ کی جو جگہ جگہ تصاویر ہیں یہ اس مرد کی خوشی کا شاخسانہ ہیں جس نے ہمیں عورت ہونے کا احترام دیا۔ ہمیں انسان سمجھتے ہوئے پوری جگہ دی اور ہمارے وجود کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس وجود کو مقدم جانا۔ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن کسی بھی کامیاب عورت کے پیچھے صرف مرد کا نہیں بلکہ ہمیشہ بھرے پرے مرد کا ہاتھ ہوتا ہے جو اس عورت کی کامیابی سے خائف نہیں ہوتا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ خود بھی اپنا وزن رکھتا ہے، وہ کسی صورت اس عورت سے کم نہیں ہو جائے گا