نظریاتی اختلاف، جھوٹ اور عدم برداشت ۔۔۔ زین خٹک

0
102

موجودہ دور میں برداشت کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ ہمارے نظام تعلیم میں اور نہ ہی ہمارے معاشرے میں برداشت کے حوالے سے کوئی رہنمائی اور ٹریننگ کروائی جاتی ہے۔ ہم ہمیشہ سے اس مغا لطے کے شکار ہیں کہ ہم سب سے بہتر ہیں اور دوسرے کم تر ہیں۔ اس سوچ کی بدولت ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھتا جارہا ہے۔ دوسری طرف آج کل سوشل میڈیا کی بدولت شہرت کی وبا پھیل رہی ہے۔ ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا پر آ کر کسی دوسرے کے نظریے پر حملہ آور ہوتا ہے۔ نظریہ خواہ سیاسی ہو یا مذہبی ،کسی انسان کی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا میں زیادہ تر فسادات نظریاتی اختلافات کی بدولت ہی ہوئے ہے۔ نظریات پر حملہ آور کو منفی سوچ کے لوگوں سے زیادہ پذیرائی بھی ملتی ہے۔ اور لوگ بھی بغیر کسی تحقیق کے سچ مان لیتے ہیں۔ گذشتہ روز پی ٹی ایم کی طرف سے تین بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں کہ یہ بھوک کی وجہ سے مر گئے حلانکہ ان بچوں نے موسم سرما کے کپڑے پہنے تھے اور یہ ایک پرانی تصویر تھی لیکن اس کے باوجود بھی سوشل میڈیا پر لوگ دھڑا دھڑ پھیلا رہے تھے۔ اسی طرح چند دن پہلے عوامی نیشنل پارٹی نے ترکی میں جلوس کے تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی تھیں۔ کہ یہ عوامی نیشنل پارٹی کا بجٹ کے خلاف مظاہرہ ہے۔ حلانکہ اس تصویر میں، بلڈنگ، کپڑے، سب کچھ نمایاں تھیں۔ اج کل سوشل میڈیا پر بغیر دلیل و استدلال مغا لطے کی بنیاد پر نظریات زیر عتاب ہیں۔ کوئی بندہ آزادنہ طور پر اپنے نظریے پر بات نہیں کرسکتا۔ کیونکہ سوچ وشعور سے عاری مفتیان اور غازیانِ سوشل میڈیا فتویٰ کی بمباری شروع کرتے ہیں۔ ہر روز بے بنیاد اور دلیل کے بغیر خبریں جھوٹی خبریں معمول بن چکی ہیں۔ بغیر دلیل و شعور کے نظریات پر حملوں سے با ت گالیوں تک پہنچتی ہے۔ گالیوں سے بات معاشرے میں بگاڑ اور خون خرابے تک چلی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ ہم کسی جھوٹی خبر کو نہیں پھیلائیں گے۔ کسی کے نظریات پر حملہ نہیں کریں گے۔ ہمیشہ مثبت تنقید کریں گے۔ کسی بندے کے ذاتی زندگی پر حملہ نہیں کریں گے اور کوئی بھی با ت ثبوت کے بغیر نہیں کریں گے۔ اسی سے معاشرے میں ایک مثبت مکالمے کی راہ ہموار ہو سکے گی اور دوسرے کے نظریات کو تحمل سے برداشت کرنے کی روش عام ہو گی۔

Leave a reply