انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ میل جول تعلقات بنانا پسند کرتا ہے اور ہمیشہ دوسروں کا ساتھ ڈھونڈتا رہتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جو اکیلا رہ کر زندگی گزارنا پسند کرے۔ کیونکہ قدرتی طور پہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور سماج میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اکیلا رہنا خلاف فطرت ہے یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی پسند اور طبعیت کے مطابق دوست بناتا ہے اور اچھی زندگی گزارنے کے لئے بھی انسان کو دوسروں کے ساتھ اور باہمی مدد کی ضرورت رہتی ہے۔ انسان پہ تعلیم کی نسبت صحبت کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اچھی یا بری صحبت سے ہی انسان کے اپنے اخلاق کا بھی دارومدار ہے۔ انسان کی زندگی میں سکون اور تکلیف بھی صحبت سے ہی جڑے ہیں۔ جب ہمیں یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ معاشرے میں رہنے کے لئے ہمیں دوسرے لوگوں کی ضرورت ہے تو یہ دیکھ لینا چاہئیے کہ جس کے ساتھ ہم وقت گزار رہے ہیں اٹھتے بیٹھتے ہیں اس کے اخلاق اور آداب کیسے ہیں کیونکہ دوستوں کے اخلاق کا اثر خود انسان پہ بھی پڑتا ہے جو شخص اچھے اور نیک دوستوں کی صحبت میں رہتا ہے اس کے اپنے اخلاق بھی ویسے ہوجاتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ہماری دوستی کسی ایسے شخص سے ہوجائے جو بری عادات کا شکار ہو تو وہ عادات ہم میں منتقل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ اچھے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھیں گے تو معاشرہ بھی آپ کو ویسے ہی اچھی نظر سے دیکھے گا اسی طرح اگر کوئی بروں کی صحبت میں رہتا ہے تو لوگ اس کو بھی برا ہی سمجھتے ہیں۔ نیک صحبت کی عادت بچوں کو بچپن سے ہی ڈالنی چاہیے۔بچوں کا دل جلدی اثر لیتا ہے اس لئے ان پر دوسروں کا اثر فوری ہونے لگتا ہے۔ شیخ سعدی اپنی مشہور کتاب ”گلستان سعدی” کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ایک دن حمام میں میرے دوست نے مجھے خوشبو والی مٹی دی میں نے اس مٹی سے پوچھا کہ تو مشک ہے یا عنبر ہے؟ تیری خوشبو نے تو مجھے مست کر دیا ہے ،مٹی کہنے لگی میں تو مٹی ہی ہوں مگر ایک عرصہ تک پھولوں کی صحبت میں رہی ہوں یہ میرے ہم نشیں کے جمال کا اثر ہے ورنہ میں تو وہی مٹی ہوں۔ اللہ تعالٰی نے انسان میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ وہ دوسرے کے اثر بہت جلد قبول کرتا ہے۔ﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: "اے ایمان والو! تقوی اختیار کرو اور صادقین کی صحبت اختیار کرو۔”(التوبۃ 119)۔
اچھی صحبت کے فضیلت میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں”اچھی مجلس اور بری مجلس کی مثال اس طرح ہے جس طرح خوشبو بیچنے والے اور بھٹی سلگانے والے کی مثال ہے ، اگر عطار تمہیں خوشبو نہ بھی دے تب بھی اس کی خوشبو تمہیں پہنچ کر رہے گی، اور لوہار کی بھٹی کی چنگاری تمہارے کپڑے نہ بھی جلائے تو اس کا دھواں تمہارے کپڑے میلے ضرور کردے گا۔(بخاری، مسلم)۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر نیک لوگوں کی صحبت میسر نہ ہو تو ان کی زندگی کے احوال، واقعات، اقوال، نصیحتیں پڑھنا اور ان پہ عمل پیرا ہونا بھی ان کی صحبت میں رہنے جیسا ہی ہے۔
اچھے لوگوں سے میل جول اور ان سے تعلق اختیار کرنا انسان کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ایسے لوگوں کی صحبت کی وجہ سے اصلاح بہت زیادہ ہوتی ہے اور انسان کا معاشرے میں عزت وقار میں اضافہ ہوتا ہے
@KharnalZ