خودکشی تحریر:فاروق زمان
خود کشی ایک حرام فعل ہے، ایسا قبیح فعل جس میں انسان غیر قدرتی طریقے سے اپنی جان لے لیتا ہے اور خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے۔ مردوں میں خودکشی کی شرح زیادہ یے، جبکہ خواتین میں خودکشی کی شرح کم ہے۔ مردوں میں عمر بڑھنے کے ساتھ خودکشی کا رجحان بڑھتا ہے اور خواتین میں عمر بڑھنے کے ساتھ خودکشی کا رجحان کم ہو کر تقریبا ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کامیاب سمجھے جانے والے لوگ بھی خودکشی کرتے ہیں جن میں شاعر، اداکار، ادیب، بزنس مین وغیرہ شامل ہیں۔ خودکشی کرنے والا چاہے جتنا بھی اچھا انسان ہو اس کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ خودکشی کی موت خاندان اور خودکشی کرنے والے سے منسلک ہر شخص پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ لوگ خاندان والوں کا دکھ درد سمجھنے کی بجائے عجیب رویہ اپناتے ہیں، کھوج میں لگ جاتے ہیں۔ خاندان کے لوگ بھی خود کشی کی وجوہات ہر بات نہیں کرنا چاہتے، خود کشی کو حادثاتی موت کا رنگ دیا جاتا ہے۔ اس لئے خودکشی کی روک تھام کے لیے اس حد تک آگاہی نہیں ہوپاتی جتنی ضرورت ہے۔
خودکشی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لوگ اپنی زندگی اور خود سے مایوس ہو جاتے ہیں انہیں سب کچھ بے مقصد لگتا ہے۔ زندگی سے کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ لوگ گھریلو جھگڑوں سے دلبرداشتہ ہوکر اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں۔ لوگ غربت، معاشی مسائل، بےروزگاری، خود اعتمادی کا فقدان، احساس کمتری، وجود کا بحران، تعلیم میں ناکامی، ذہنی دباؤ، زہنی الجھنیں، ٹینشن، کاروبار، محبت میں ناکامی اور کئی معمولی وجوہات کی بنا پر بھی موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
پچھتاوا بھی خودکشی کی وجہ ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہو کر بھی لوگ خود کشی کر لیتے ہیں۔
ڈپریشن خودکشی کی سب سے بڑی وجہ میں سے ایک ہے۔ ڈپریشن میں منفی خیالات دماغ پر قابو پا لیتے ہیں اور کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ڈپریشن میں خودکشی کے خیالات متواتر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ تنہائی، ذہنی دباؤ، پریشانی وغیرہ خودکشی کی سر فہرست وجوہات میں سے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لوگ ذہنی بیماریوں اور ان کے علاج کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک یہ خود بہ خود ہی ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ لوگ اپنے متعلق ذہنی بیماریوں کا کسی کو نہیں بتاتے۔ اپنی تکالیف کا اظہار نہیں کرتے کیونکہ دماغی بیماریوں کو شرمندگی اور ندامت کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح معمولی نوعیت کی بیماریاں جو تھوڑی سی توجہ اور کوشش سے ٹھیک ہو سکتی تھی وہ پیچیدگیی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اگر ڈیپریشن کے مرض کی ابتدا ہی سے اس کے علاج کے لئے سدباب کیا جائے تو یہ علاج کے زریعے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اور بات خودکشی تک پہنچے ہی نہ۔ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں ذہنی امراض کے علاج کے لیے لیے ذرائع کافی محدود ہیں۔
مذہب سے دوری خودکشی کی اہم وجہ ہے۔ اگر لوگ مذہب کے مطابق زندگی بسر کریں،تو وہ خود کو خودکشی سے باز رکھ سکتے ہیں۔ اسلام میں خودکشی کو حرام اور ناپسندیدہ ترین فعل قرار دیا گیا ہے۔ اسلام امن وامان، برداشت، درگزر اور امن سلامتی کا درس دیتا ہے۔زندگی ایک نعمت ہے اور اپنی جان لینا نعمت کو ضائع کرنا اور اللہ کی خوشنودی سے محروم ہونے کے مترادف ہے۔
خود کشی کی روک تھام
بہت ضروری ہے۔ ہمیں اس میں اپنا کردار کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے مثبت رویہ اپنائیں اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ۔ کسی کے ساتھ برا رویہ نہ رکھیں ۔کبھی کسی کو ایسے کلمات نہ کہیں جو کسی کو خودکشی کی طرف مائل کر سکتے ہوں۔ خود پر بھی توجہ دیں اگر آپ کے دماغ میں منفی خیالات آتے ہیں تو حتی الامکان ان سے بچنے کی کوشش کریں اور ان سے چھٹکارہ پائیں۔ بے جا سوچوں کو دماغ میں جگہ نہ دیں۔ صحت مندانہ طرز زندگی اپنائیں۔ خود کو وقت دیں۔ زندگی بہت خوبصورت ہے آپ کا ، ہم سب کا اس پر حق ہے۔ ناامیدی کفر ہے۔ غربت، پریشانی، نامسائد حالاتِ اللّٰہ کی طرف سے آزمائش کے طور پر آتے ہیں۔کوئی بھی تکلیف دائمی نہیں ہوتی۔ جیسے بھی حالات ہوں آپ صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔ برداشت اور تحمل مزاجی کو اپنائیں۔ اپنے جذبات پر قابو پائیں اور اپنے آپ کو پرسکون رکھیں۔ زہنی دباؤ کا مقابلہ کریں۔ زندگی سے مایوس ہو کر موت کو گلے لگانے کی بجائے اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں روشنی پیدا کریں۔ اچھے کام کریں، دوسروں کے کام آئیں۔ با مقصد زندگی گزاریں۔ نیکی کے کام کریں اور انہیں پھیلائیں۔ نماز پنجگانہ ادا کریں۔ قرآن کریم کی تلاوت کریں، یقینا اس میں دلوں کا سکون ہے۔
اپنے جذبات و احساسات اپنے سے قریبی لوگوں کے سے شیئر کریں۔ ان پر اعتبار کریں۔ خود کو پہچانیں اور خود کو موت کے حوالے کرنے کے بجائے زندگی کی طرف قدم بڑھائیں
متوازن سوچ کے ساتھ کے ساتھ اچھی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، اگر کوئی ذہنی دباؤ کا شکار ہے یا توجہ کا مستحق ہے تو اسے وقت دیں۔ اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اور زندگی سے مایوس لوگوں کو زندگی کی طرف واپس لائیں اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔
حکومت کو چاہیے کہ ذہنی امراض کے علاج معالجے کے لئے ہسپتال اور کاونسلنگ مراکز قائم کریں۔ ذہنی امراض کے شکار مریضوں کے علاج معالجے کے لیے فنڈز کی رقوم مختص کریں۔ ذہنی اور دماغی امراضِ کے علاج کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ اگر آپ کو کوئی ذہنی بیماری ہے تو لازما ڈاکٹر کے پاس جائیں اور مکمل علاج کروائیں۔
کوئی بھی خودکشی کرے تو اس کے قاتل اس کے اردگرد بسنے والے تمام لوگ ہوتے ہیں۔ اس کا قاتل پورا معاشرہ ہوتا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے اس کی خودکشی کا سبب بنتا ہے۔ ہمیں ہر ممکن حد تک خودکشی سے بچاؤ کی تدابیر کرنا ہوں گی، تاکہ ہم بہت سی جانوں کو حرام طریقے سے لقمہ اجل بننے سے بچا سکیں۔
@FarooqZPTI