چترال:سیاحتی مقامات کو ترقی دینے کیلئے حکام کی توجہ کی ضرورت ہے۔سیاح

چترال:سیاحتی مقامات کو ترقی دینے کیلئے حکام کی توجہ کی ضرورت ہے۔سیاح
چترال سےگل حماد فاروقی کی رپورٹ چترال رقبے کے لحاظ سے خیبر پحتون خواہ کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ یہ ایک سیاحتی ضلع ہے اوریہاں اب بھی ایسے خوبصورت مقامات موجود ہیں جو ابھی تک حکام اور سیاحوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کی نظروں سے بھی اوجھل رہے ہیں۔

وادی بھیستی کے لوگوں کا گرمائی چراگاہ رشو بینی بھِی ان سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے یہ جگہ سطح سمندر سے تیرہ ہزارپانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں ہر طرف ہریالی اور جنگلی پھول نکلے ہوئے ہیں۔ پہاڑوں کے دامن سے قدرتی چشموں میں نہایت ٹھنڈا اور صاف پانی نکلتا ہے۔ یہ پانی ایک نہر کی شکل میں نیچھے بہتا ہے جس کی چوڑائی 12فٹ ہے۔ مقامی لوگ جب بھِی یہاں پکنک پر آے ہیں تو اس نہر سے اس پار چھلانگ لگانے کے مقابلے ضرور کرتے ہیں۔

یہاں ہر طرف قدرتی طور پر سبز گھاس اُ گی ہوئی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ کسی نے یہاں سبز قالین بچھایا ہے۔رشو بینی جاتے وقت راستے میں ہر طرف سبز درخت، جنگل اور پہاڑوں سے نکلنے والا صاف اور دودھیا پانی کے چشموں کی بہتات نے اس وادی کی حسن میں مزید اضافہ کیا ہوا ہے۔

سطح سمندر سے ساڑھے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہونے کے ناطے یہاں آنے میں ضرور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر جب انسان یہاں پہنچ جائے تو ان حسین مناظر کو دیکھ کر سب کچھ بھول جاتا ہے۔یہاں کافی پر سکون ماحول ہیں ارد گرد موسمی پرندوں کی چہچہانے اور بہتے پانی کی آواز سے نہایت پرسرور موسیقی جیسی آواز انسان کو مسرورکردیتی ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہم اپنے بیل گائیں یہاں لاکر چراتے تھے اور یہ ہماری گرمائی چرا گاہ ہے ۔ یہاں مقامی خواتین بھی آیا کرتی تھیں اور لوگ پکنک منانے کیلیے اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں آکر لطف اندوز ہوتے تھے۔ مگر آجکل یہاں ان پہاڑوں میں سے زمرد نکالنے کیلیے غیر مقامی لوگوں کی نقل و حرکت زیادہ ہونے کی وجہ سے اب خواتین یہاں نہیں آ سکتیں۔
جب انسان پہلی بار یہاں پہنچ جاتا ہے تو ارد گرد جنت کا منظر محسوس کرتا ہے۔ مگر راستوں کی خرابی کی وجہ سے یہ جنت نظیر وادی ابھی تک حکام اور سیاحوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کی نظروں سے بھی اوجھل رہی ہے۔

ہماری ٹیم جب یہاں پہنچ گئی تو علاقے کے لوگوں نےانتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہماری ٹیم کا والہانہ استقبال کیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پہلی بار میڈیا ٹیم یہاں پہنچی ہے اور اب امید ہے کہ یہ علاقہ بھی میڈیا پوری دنیا کو دکھاکر ہماری قسمت بھی بدلے گا۔ ہماری ٹیم کو یہ اعزاز حاصل ہے ہماری پہلی میڈیا ٹیم ہے جو اس قدر اونچی جگہ پر پہنچ کر خوبصورت علاقے کی کوریج کررہی ہے۔

مرزا ولی کا کہنا ہے کہ ہم جوانی میں یہاں آیا کرتے تھے اور یہاں آکر اس نہر سے اس پار چھلانگ لگانے کا مقابلہ بھی کرتے تھے جس کی چوڑائی بارہ فٹ ہے یہاں ہم اکثر گرمیوں میں پکنک منانے آیا کرتے تھے اور رات کو ٹینٹ لگا کر یہاں سوتے تھے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے ٹورزم ڈیپارٹمنٹ یعنی محکمہ سیاحت دعویِٰ کرتا ہے کہ وہ سیاحت کو فروغ دینے کیلیے کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے مگر بدقسمتی سے یہ سیاحتی مقام ابھی تک انہوں نے نظر انداز کیا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگ وفاقی اور صوبائی حکومت کے محکمہ سیاحت کے ارباب احتیار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس خوبصورت علاقے میں بھِی سیاحت کو ترقی دینے کیلیے یہاں کی راستے بنائے جائیں اور یہاں کوئی روائتی کھیلوں کا ٹورنامنٹ منعقد کرے تاکہ یہ علاقہ بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے

یہاں سیاحت کو فروغ دینے سے اس پسماندہ علاقے سے بھی غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے۔ پکنک کے دوران مقامی لوگوں نے ہماری ٹیم کی آمد کی خوشی میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا بھی ڈالا اور روائتی رقص پیش کرتے ہوئے خوب محظوظ ہوئے۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انسان جب یہاں آتا ہے تو ان حسین نظاروں کو دیکھ کر انسان کو مَسْحُور ہوجاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ان حسین نظاروں نے آنے والے سیاحوں پر جادو کردیاہے یہی وجہ ہے کہ یہاں آنے والے تمام سیاح بھنگڑا ضرور ڈالتے ہیں اور چند لمحوں کیلیے اپنا غم بھول جاتے ہیں۔

Leave a reply