سپریم کورٹ،سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نے کچھ سوالات پوچھے، ابھی دلائل دوں یا جواب الجواب میں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چھوٹے دلائل ہیں تو ابھی دےدیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں چیئرمین کی سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر ہوتی، سنی اتحاد کونسل کا نشان نہ ملنے پر چیئرمین نے بطور آزادامیدوار انتخابات لڑے، جمیعت علمائے ف میں بھی اقلیتیوں کو ممبر شپ نہیں دی جاتی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے ہوا میں بات کی، ایسے بیان نہیں دے سکتے، آپ دستاویزات دیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں دستاویزات بھی دوں گا، الیکشن کمیشن بھی کنفرم کردےگا، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی کیساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کہہ رہے حامدرضانے سنی اتحاد کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ حامدرضا کو ٹاور کا نشان دیاگیا، سنی اتحاد کا نشان گھوڑاہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حامدرضا کو گھوڑے کا نشان کیوں نہیں ملا؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے زبردستی آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصل صدیقی صاحب اگر آپ نے کاغذات فائل کئے ہونگے تو سوالات نہیں پوچھنے پڑتے، کاغذات کے بغیر آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا،
الیکشن کمیشن نے چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے کاغذات نامزدگی پیش کر دیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دیں،
سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟ جسٹس منصور علی شاہ
مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا، مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن پروگرام الیکشن ایکٹ کے تحت جاری کیاگیا، کاغذات نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کروانا ضروری ہوتا، تاریخ میں توسیع بھی کی گئی،24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری کی گئی،الیکشن کمیشن کنفرم کرےگا، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس سوال کا جواب الیکشن کمیشن بہتر دے سکتا ہے، سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیا تو اضافی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی رکنیت معطل ہوگئی،انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرانے والے ہی بعد میں دعویٰ کر سکتے ہیں،الیکشن ایکٹ سیکشن 206 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو شفاف طریقہ کار سے نشستوں کے لیے لسٹ دینی ہوتی، سنی اتحاد کی طرف سے کسی امیدوار نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جس کی وجہ سے خواتین کی لسٹ موجود نہیں اور جمع نہیں کرائی گئی،جمع کروائی گئی لسٹ تبدیل نہیں کی جاسکتی، الیکشن کمیشن کنفرم کردےگا،پانچ رکنی پشاور ہائیکورٹ کے بینچ نے دونوں کیسز میں سنی اتحاد کے خلاف فیصلہ دیا، سنی اتحاد نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ آزادامیدوار شامل ہوئے ہیں
حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا،جسٹس عائشہ ملک
وکیل مخدوم علی خان نے الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیااور کہا کہ مخصوص نشستیں حاصل کی گئی جنرل سیٹوں پر انحصار کرتی ہیں،آزادامیدوار تین دنوں کے اندر کسی جماعت میں شامل ہوں تو مخصوص نشستوں کے لیے گنا جائےگا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو یہ سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کیلئے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فی الوقت صاحبزادہ حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ انکے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا، الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اپیلوں میں یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون واضح ہے کہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا،
اپنے موقف پر قائم ہوں پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس عرفا ن سعادت نے کہا کہ تحریک انصاف اور تحریک انصاف نظریاتی میں کیا فرق ہے،کبھی تحریک انصاف ہوجاتی ہے کبھی تحریک انصاف نظریاتی ان میں فرق بتائیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا تحریک انصاف نظرثانی سیاسی جماعت ہے،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف نظریاتی سیاسی جماعت ہے جس کا انتخابی نشان بلے باز ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا تحریک انصاف نے ایسا کیوں کیا؟ اپنی پارٹی میں رہنا چاہیے تھا، سنی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم نے تو نہیں کہا کہ سنی اتحاد میں شامل ہوں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انتخابات کو سپریم کورٹ میں دیکھا جارہا، الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد کیسے ظاہرکیا؟ کسی سیاسی جماعت نہیں بلکہ الیکشن کے حوالے سے بات کررہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنے موقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں،متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں، اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا موقف کیا ہے؟ دیگر جماعتوں کو چھوڑیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولہ سمجھائیں! فارمولا کیا ہے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد نے انتخابات میں حصہ لیا نا مخصوص نشستوں کی لسٹ فراہم کی، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایسے کیا متناسب سیٹیں دیگر سیاسی جماعتوں کو مل جائیں گی؟فرض کریں سنی اتحاد کو نہیں ملتیں مخصوص نشستیں لیکن آپ کو کیسے ملنی چاہیے ؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں فرضی سوالات کے جوابات نہیں دوں گا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کوئی ممبر استعفیٰ دےدے یا انتقال کرجائے تو ایسا تو نہیں پارلیمنٹ کام کرنا چھوڑ دےگی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی جج ریٹائر ہوجائے تو سپریم کورٹ کام کرنا تھوڑی چھوڑ دےگی؟ اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ماضی میں بھی انتخابات میں پارلیمنٹ مکمل کرنے کیلئے مخصوص نشستیں دی گئیں،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسا کیس کبھی نہیں آیا کہ کسی پارٹی نے انتخابات لڑے نہیں اور مخصوص نشستیں مانگ رہی ہو،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی رہ سکتی ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب آمر آئے سب ساتھ مل جاتے ہیں منسٹر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں،جب جمہوریت آئے چھریاں نکال کر آجاتے ہیں،اپنے آئین پر عملدرآمد کے بجائے دوسرے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں،آئین کا تقدس ہے اور اس پر عمل کرنا سب پر لازم ہے،
سب ماضی کی بات کرتے ہیں آج کی کیوں نہیں؟ہمیں کسی دن تو کہنا ہو گا بس بہت ہو گیا، جسٹس اطہرمن اللہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی ڈکٹیٹر کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں،میں نے مشرف دور میں وکالت چھوڑ دی تھی،ڈکٹیٹر کے وقت منسٹر بھی بن جائیں پھر اصول کی بات کریں؟ تاریخ کی بات کر رہے ہیں تو مکمل تاریخ کی بات کریں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انتہائی احترام سے کہہ رہا ہوں آج آئین کی پاسداری نہیں ہو رہی، ہم آج ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے جوابدہ ہوں گے،ہم بطور سپریم کورٹ آنکھیں بند نہیں کر سکتے،ہم نے بطور سپریم کورٹ سر ریت میں دبا لئے ہیں، لاپتہ افراد کے کیسز ہیں، بنیادی حقوق کی پامالیاں ہیں، یہ سب سیاسی مقدمات نہیں انسانی حقوق کا معاملہ ہے،ہم سب ماضی کی بات کرتے ہیں آج کی کیوں نہیں؟ہمیں کسی دن تو کہنا ہو گا بس بہت ہو گیا، میری نظر میں آج بھی سب سے اہم درخواست اس عدالت میں 8 فروری الیکشن میں دھاندلی کی ہے،
سیاسی جماعت کے منشور میں اقلیتی خانہ شامل نہیں تو اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی جائےگی،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاریخ بہترین استاد ہے ورنہ بار بار غلطیاں کی جاتی ہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں کبھی نہیں کہوں گا کہ میں نے غلطیاں نہیں کیں، سنی اتحاد نے جس طرح کیس کو عدالت میں پیش کیا ویسے ہی اسے دیکھنا چاہیے، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی، سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا ہوتیں،جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں ان پر مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا لازم نہیں،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ انتخابات کو سیکرٹ بیلٹ کے تحت ہونا چاہئے سیکرٹ بیلٹ کہاں ہے؟وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ووٹرز کو معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ دینے والی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ کیا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم ججز اور الیکشن کمیشن بھی آئین کی پاسداری کا حلف لیتا ہے،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی نہیں کہتاکہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائےگا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا،اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی دینا اصل مقصد ہے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدر اور سینٹ انتخابات کیلئے الگ الیکٹوریٹ دیا ہوتا ہے،کیس میں لگ رہا جیسے انتخابات ہوہی نہیں رہے لیکن آپ کہہ رہے کہ الیکشن ہورہا ہے،آپ مجھے دکھا دیں کہ کوئی الیکشن ہورہا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ایسی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے آج کیس مکمل کرنا ہے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہیں دیتی تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رکھی جائےگی، انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف سیٹ جیٹ سکتی ہے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سیاسی جماعت کون ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یعنی جو لسٹ نہیں دیتی اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جب کوئی سیاسی جماعت سیٹیں جیتے تو انتخابات میں جیت کا معلوم ہوتا ہے،جیتنے والی سیاسی جماعتوں میں آزاد امیدوار شامل ہوتے ہیں،جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں اس میں آزاد امیدوار شامل نہیں ہوسکتے، جس سیاسی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ ہی نہیں تو الیکٹوریٹ پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے منشور میں اقلیتی خانہ شامل نہیں تو اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی جائےگی،اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے،اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئے گا خریدنا تو ضروری ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی،ہمیں درخواستگزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیرالتوا ہیں،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ درخواستیں کیوں زیرالتوا ہیں اس کا جواب عدالت دے وکیل تو نہیں دے سکتا،اگر سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل لسٹ نہیں دی اور بعد میں دے تو مزید غیر جمہوری ہوگا،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت سیٹیں زیادہ جیتیں،مسئلہ یہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائینگی،قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں، آپ کہہ رہے اگرسنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں، اب جب نہیں تو 27 سیٹیں ن لیگ کی ہوگئیں،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں دو طریقہ کار سے سیٹیں تقسیم گئی ہیں،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آزادامیدوار نے ایسی سیاسی جماعت شامل ہونا ہوتا جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا صرف یہی ضروری ہے کہ سیٹیں زیادہ ہوں یا انتخابات میں خواتین، اقلیتوں کی نمائندگی پر بات کرنا ضروری ہے، اقلیتی، خواتین کسی سیاسی جماعت میں ہیں یا نہیں لیکن ان کی نمائندگی کو محفوظ کرنا ہے،تاریخ پر بات کرنی چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر دو سیاسی جماعت ہیں تو انہی پر مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے انتخابات کا رزلٹ آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا، دو سیاسی جماعتیں ہیں تو کیا انہیں پر مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں بانٹنے کا طریقہ ہر انتخابات میں تبدیل ہوتا رہتاہے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھنے کا نہیں کہہ رہا، آئین کہہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھیں،
ماضی کے انتخابات میں ن لیگ ، پیپلزپارٹی کہیں نہ کہیں متاثرہ رہی لیکن سپریم کورٹ مدد کے لیے سامنے نہیں آئی، جسٹس اطہرمن اللہ
حقیقت یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے نا لسٹ دی اور نا ہی انتخابات میں حصہ لیا،وکیل مخدوم علی خان
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ اقلیتی بھی آپ کی سیاسی جماعت میں اکر بیٹھیں، اگر سیاسی حریف نہیں پسند تو سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ دونوں حریف ساتھ بیٹھیں گے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اقلیتی، خواتین کو ضرور پارلیمنٹ میں نمائندگی ملنی چاہیے،ماضی کے انتخابات میں ن لیگ ، پیپلزپارٹی کہیں نہ کہیں متاثرہ رہی لیکن سپریم کورٹ مدد کے لیے سامنے نہیں آئی، جیسا 2018 میں ہوا اب بھی ویسا ہی ہورہاہے، متاثرہ ایک ہی سیاسی جماعت رہی، ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، ابھی تو ہم موجودہ درخواستوں پر کرلیں گے بات لیکن مستقبل میں ایسا وقت ضرور آئےگا جب سپریم کورٹ دوبارہ افسوس کرےگی، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے نا لسٹ دی اور نا ہی انتخابات میں حصہ لیا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2 فروری 2024 والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، کیا ہمیں الیکشن کمیشن کے غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کردینا چاہیے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اگر ایک سیاسی جماعت ہے جو بہت مشہور ہے لیکن انتخابات سے بایئکاٹ کرلیتی ہے، کیا عوام کی سپورٹ کے باوجود بائیکاٹ کرنے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی؟ مخصوص نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہو گئے
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کا شیڈول ایک اہم دستاویز ہوتا جس میں مخصوص اور جنرل سیٹیں شامل ہوتی ہیں،جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی کے لیے ایک تاریخ دی جاتی،مخصوص نشستوں کابھی نوٹیفکیشن ہوتاہے، فارم 33 جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے ہوتاہے،ریٹرننگ افسران مخصوص، جنرل نشستوں کے فارم 33 کی اسکروٹنی کرتے ہیں، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرےگا کہ امیدوار کی کس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فارم66 مخصوص نشستوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی گئی لسٹ ہوتی،
جنرل اور مخصوص نشستوں کی لسٹ کا طریقہ کار بلکل ایک طرح کا ہے،کاغذات نامزدگی پہلی اسٹیج ہوتی ہے، خواتین، اقلیتوں کی سیٹوں کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی جنرل نشستوں کی ہے،خواتین کی مخصوص نشست وزیراعظم کے لیے بھی امیدوار ہوسکتا،
انتحابی نشان واپس ہونے سے ایک جماعت کو انتخابات لڑنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے،جسٹس اطہرمن اللہ
وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے،لگتا ہے آج یہ کیس لمبا چلے گا ڈنر یہیں ہوگا،چیف جسٹس
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کر دیا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کیسے کی ہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جب انتحابی نشان واپس ہوگیا تو پی ٹی آئی نے وقت پر نئے انتخابی نشان کیلئے درخواست نہیں دی،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انتحابی نشان واپس ہونے سے ایک جماعت کو انتخابات لڑنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے مطابق بلے کے نشان کے فیصلے سے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کیا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایسا نہیں ہے معذرت اگر ایسا سمجھا گیا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصلے کو کم از کم پڑھ لیں فیصلہ نہیں بلکہ یہ قانون ہے،آج انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے تو کل ہو سکتے ہیں، میں حیران تھا کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرا رہی،الیکشن کمیشن کے وکیل سوالات نوٹ کر کے آخر میں جواب دیں،ہزاروں کیسز پڑے ہیں اس ایک ہی کیس کو تو نہیں سنیں گے،تین بجے تک سماعت میں وقفہ کرتے ہیں،آج ہم ججز کا کھانا ہے وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے،لگتا ہے آج یہ کیس لمبا چلے گا ڈنر یہیں ہوگا،کیس کی سماعت میں تین بجے تک وقفہ کر دیا گیا
سپریم کورٹ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی،الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیئے،جسٹس یحیی آفریدی کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل کی جسٹس اطہر من اللہ سے تلخ کلامی ہوئی،متعدد بار روکنے کے باوجود سکندر بشیر بولتے رہے۔جسٹس عائشہ ملک بھی الیکشن کمیشن کے وکیل کے رویئے پر برہم ہو گئیں ،ریمارکس دیتے ہوئےکہا کہ یہ جواب دینے کا غیر مناسب طریقہ ہے۔
پریس کانفرنس ہوتی رہیں،پورے پاکستان نے دیکھا،الیکشن کمیشن نےانکوائری کی کیوں یہ ہوا؟ جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پریس کانفرنس ہوتی رہیں،پورے پاکستان نے دیکھا،الیکشن کمیشن نےانکوائری کی کیوں یہ ہوا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں اسکاجواب نہیں دوں گا،مائی لارڈ میں نے پریس کانفرنس دیکھی ہی نہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یعنی آپ کامطلب ہےکہ الیکشن کمیشن کسی بےقاعدگی کی ذمہ داری لینےکو تیارنہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انتخابات سے قبل اور بعد کی جمع ہونے والی شکایت بھی دے دیں،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صاحبزادہ حامد رضا کو قانون کے مطابق ان کی پارٹی کا نشان کیوں نہیں دیا؟آپ نے اسے شٹل کا ک کا نشان کیوں دیا.یہ ایک غیر معمولی صورتحال تھی کہ پارٹی کو انکا نشان نہیں دیا گیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد نے کبھی مخصوص نشستوں سے متعلق اپنی لسٹ دی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق کوئی لسٹ نہیں دی،صوبائی، قومی میں اقلیتی، خواتین کی الگ الگ لسٹیں بنتیں، کُل 13 لسٹیں بنتیں ہیں، سنی اتحاد نے ایک بھی نہیں دی،
بلے کے نشان پر نہیں، سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ دیا تھا، چیف جسٹس
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ججز پر برہم ہو گئے،ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اب میں سپریم کورٹ فیصلے پر کسی کو ریمارکس نہیں دینے دوں گا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بلے کے نشان پر فیصلے سے کنفیوژ کررہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اطہرمن اللہ کو روک دیا، اور کہا کہ بلے کے نشان پر نہیں، سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ دیا تھا، انٹرا پارٹی الیکشن اور بلے کے نشان کا فیصلہ کہنے میں فرق ہے، ایک طرف ریویو کررہے اور دوسری طرف تبصرہ کررہے، کسی اور بینچ کا فیصلے پر ریمارکس دینا درست نہیں ، آگے چلیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کوئی بھی فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھا رہا،کیا الیکشن کمیشن نے بتایاکہ اگر بلا نہیں ہوگا تو تمام امیدوار ایک نشان پر انتخابات کیسے لڑیں گے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر تھا اس کے اثرات ہوسکتے تھے، جمہوریت کی ضرور بات کرنی ہے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروانا، ہمارا کام یہ دیکھنا نہیں کہ کون کس کو منتخب کرتا ہے، 91 پوسٹس تھیں تحریک انصاف کے سب عہدیدار بلامقابلہ منتخب ہوئے، بطور وزیراعظم الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ انٹراپارٹی انتخابات کیلئے ایک سال دے دیں، اب تو شاید وہ الیکشن کمیشن کے دشمن ہوگئے، مجھے نہیں سمجھ آتی کیوں اپنی سیاسی جماعت میں انٹراپارٹی الیکشن نہیں کرواتے کیا یہی جمہوریت ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل ریکارڈ صیحح طرح سے سپریم کورٹ میں پیش کرنے میں ناکام ہو گئے، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے میرے خیال سے الیکشن کمیشن کو آج ریکارڈ دے دینا چاہئے تھا،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں 6 بجے دفتر پہنچا،جسٹس منصور علی شاہ ریکارڈ ڈھونڈتے رہے،سُنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی مدد کو آگئے، ریکارڈ پیش کرنا چاہا تو الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا شکریہ،الیکشن کمیشن وکیل صیحح طرح سے ریکارڈ پیش نہ کرنے پر معذرت کرتے رہے،وکیل الیکشن کمیشن صفحے بدلتے رہے، مدد لیتے رہے،ججز ایک دوسرے کے صفحے دیکھتے رہے اور پوچھتے رہے، کنفیوژن ہوگئی
سُپریم کورٹ میں سُنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت جمعرات کی صبح 11:30 بجے تک ملتوی کر دی گئی.
سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر سماعت 24 جون تک ملتوی
سپریم کورٹ، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کیخلاف کیس کی سماعت ملتوی
مخصوص نشستیں، فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں نظر نہیں آ رہا، مبشر لقمان
واضح رہے کہ 6 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے سے متعلق کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا تھا،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ واپس لینے کیلئے یہ اعتراف کرلینا چاہئیے کہ الیکشن والے دن بہت بڑی فاش غلطی ہوئی
بلیک میلنگ کی ملکہ حریم شاہ کا لندن میں نیا”دھندہ”فحاشی کا اڈہ،نازیبا ویڈیو
حریم شاہ..اب میرا ٹائم شروع،کروں گا سب سازشیوں کو بے نقاب، مبشر لقمان نے کیا دبنگ اعلان
میں آپکی بیویوں کے کرتوت بتاؤں گی، حریم شاہ کی دو سیاستدانوں کو وارننگ