وہ ایک مسافر کو ڈراپ کرکے واپس گھر جارہا تھا کہ شہر کے پوش ہوٹل کے باہرایک قطار میں لگے درجن بھر فلیگ پوسٹس پر اسے سبز ہلالی پرچم لہراتا
اس سال سیلاب کی تباہی سے اگر کوئی ایک اہم سبق سیکھا جا سکتا ہے تو وہ ہے۔۔۔“وقت سے پہلے تیاری”۔۔۔۔تاہم اب تک این ڈی ایم اے، فیڈرل فلڈ کمیشن
تاریخ کا نہایت ہی اہم میچ شروع ہوا ہی چاہتا ہے ،ٹاس ہو چکا ہے لیکن ابھی تک کھیلنے ٹیم کا اعلان ہی نہیں ہوا ۔ یہ میچ اس لئے
ندی میں سرخی مائل پانی بہہ رہا تھا جس کی گہرائی نامعلوم تھی۔ندی کے پیندے میں پانی کے متعدد راستے تھے جن کے ساتھ ساتھ کوندر اور سر کے پودے
دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر، سب سے بڑی اور پرانی بندرگاہ ، سارے ملک کے تمام شہروں کے اجتماعی ریونیو سے
ہم گھبیر ندی کے کنارے بیٹھے تھے اور اس پر مجوزہ ڈیم کی جھیل کے علاقے کو دیکھنا چاہتے تھے۔ ارشد فیاض صاحب چیف جیولوجسٹ نے سگریٹ کا کش لیا
انجنئیرنگ یونیورسٹی کے تھرڈ ائیر میں جب لیاقت ہال میں کمرہ ملا ہوا تو پتہ چلا کہ کوریڈور میں میرے سامنے والے کمرے میں لاوہ بھائی رہائش پذیر ہیں۔ وہ
آپ نے ملک بھر کے سیلاب زدہ علاقوں میں سیلابی پانیوں سے گھری قدرے محفوظ جگہوں پر مختلف اداروں کی طرف سے قائم خیمہ بستیاں دیکھی ہوں گی۔یہی ہمارے مستقبل
ڈاکٹر صاحب پانی کے موضوع پر ایک بہت عالم فاضل آدمی ہیں جنہیں میرے جیسا کم علم آدمی فیس بک پر پاکستان کے ڈیموں کے حوالے سے وائرل ہونے والی
گوادر چائنہ کے “ون روڈ ۔ ون بیلٹ” جیسے جدید عالمی تجارتی راستے کا وہ صدر دروازہ ہے جس کے تالے کی کنجی گوادر سے چارسو کلومیٹر مشرق میں ہنگول